کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 72
نے حنفیہ کرام ملتان کے ایک جلسہ میں فرمائی، جس پر ان کے رفقائے مذہب نے نہ صرف کہ اس وقت ہی ہنگامہ بپا کردیا، بلکہ بعد میں بھی فتویٰ بازی اور مضامین سازی کی مہم چلا دی، حتی کہ خود مدرسہ دیوبند اور اس کےرسالہ ”دارالعلوم“ نے اس میں کافی دلچسپی لی۔
”جیسا کہ ابھی معلوم ہوگا، یہ مضامین عموماً”دلائل“ کے بجائے جذبات پر مبنی تھے۔ اس لیے اونچے نام کی وجہ سے محسوس کیا جارہا تھا کہ ان”تازہ ارشادات دیوبند“ کا علمی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ عاجز نے حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب۔ مدظلہ۔ کی خدمت میں یہ درخواست گزاری۔ حضرت نے بے حد مصروفیات کے باوجود چند دنوں میں ایک بیش قیمت علمی وتحقیقی مقالہ تیار فرمادیا، جسے ہم نے اپنے ماہنامہ”رحیق“ جو ان دنوں جاری تھا۔ کی تین اشاعتوں(مارچ تامئی 1958ء) میں شائع کردیا۔ “مولانا بھوجیانی رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
”اس مقالے کا اہل علم وفضل نے گرم جوشی سے استقبال کیا، مگر خواصان دیوبند میں اس سےخاصی ہلچل پیدا ہوئی، جو قدرتی تھی، چنانچہ ایک صاحب نے مدیر”تجلی“دیوبند کو جوش بھرا خط لکھا، جو رسالہ”تجلی“(بابت جولائی واگست 1958ء)میں چھپا، جس کا جواب باصواب دیتے ہوئے مدیر”تجلی“ کو کئی حقائق کاانکشاف کرنا پڑا۔ اس کےبعد ایک تحقیق پسند دوست کے دوسری نوعیت کے چند شبہات کے حل میں مولانا موصوف نے پھر ایک تفصیلی مضمون رقم فرمایا، جو ہفت روزہ”الاعتصام“لاہور(30/جنوری 1959ء) میں شائع ہوا۔ “
بعد ازاں”رحیق“ لاہور”الاعتصام“لاہور اور”تجلی“ دیوبند کے یہ تمام مضامین 1960ء میں کتابی شکل میں طبع ہوئے اور پھر زیرِ نظر کتاب میں شامل کیے گئے۔