کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 71
ہے، جس میں انھوں نے مخالفین کے شبہات واتہامات کا بھی بھر پور جائزہ لیا ہے اور مسلک اہلحدیث کے موقف کی مضبوطی اور فریق مخالف کے منہج واستدلال کی کمزوریاں بھی خوب واشگاف کی ہیں۔ 7۔ ایک مقدس تحریک جو مظالم کاتختۂ مشق بنی رہی: اس مضمون میں تقلید وجمود کے مختلف اثرات، مسلک اہلحدیث کےخلاف اہل الرائے کی ریشہ دوانیاں، تاریخ اہلحدیث کے بعض ادوار کا تذکرہ اور تقلید وظاہریت کے درمیان اہلحدیث کے امتیازی مقام پر بحث کی گئی ہے۔ یہ مضمون پہلی بار ہفت روزہ”الاعتصام“ لاہور(یکم جولائی 1966ءجلد:17، شمارہ:48 تا2/ستمبر 1966ءجلد:18، شمارہ:25) میں نواقساط میں شائع ہوا۔ 8۔ مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دیوبندی حلقوں میں مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر فتویٰ بازی اور مضامین کی یورش ہوئی توحضرت سلفی رحمہ اللہ نے ایضاح حقیقت کے لیے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور اس کے متعلقہ تمام گوشوں پر روشنی ڈالی۔ حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ اس رسالے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”پچھلے چند سالوں سے دیوبندی حلقوں میں مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم بلاوجہ باعث نزاع وشقاق بنا ہوا ہے۔ ایک فریق اس پر بضد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اب بھی بقید حیات دینویہ ہیں۔ دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ ایسا سمجھنا نصوص صریحہ قرآن وحدیث اور اہلسنت کے مسلمات کے خلاف ہے۔ ”اس افسوسناک خلفشار کی ابتدا ایک تقریر سے ہوئی جو ایک جید دیوبندی عالم، صاحب حلم وعرفان مولانا سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری۔ دام مجدہ۔