کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 67
”اس وقت تک(احکام شریعت میں حدیث کا مقام) اس کی دس قسطیں آچکی ہیں اور ہم(قارئین)کو مزید تشنگی محسوس ہورہی ہے، جس کی وجہ سے ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ اس کو مزید جاری رکھتے ہوئے ہر پہلو کی اچھی طرح وضاحت کردینی چاہیے اور اس کے ختم ہونے کے بعد اس کو بھی چھپوا کر عوام الناس میں تقسیم کیا جائے۔ “(”الاعتصام“لاہور، ص:11، 25/مئی، 1964ء)
حضرت سلفی رحمہ اللہ نے جس موضوع پر بھی لکھا، اس میں علمی رسوخ، منہجِ سلف کی پاسداری، ادبی کمال، طعن وتشنیع سے احتراز، ذاتیات پر کیچڑ اُچھالنے سے گریز اور مخالفین کی قدرومنزلت ملحوظ رکھی اور اپنی بات کو خوش کن اسلوب وتعبیر سے بیان کردیا۔
جماعتی لٹریچر کی ضرورت واہمیت:
مولانا سلفی رحمہ اللہ اپنے کثیرمشاغل اور بے پناہ مصروفیتوں کے باوجود اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ مسلکی وجماعتی شعور کے احیاء کے لیے مفید علمی لٹریچر کی کتنی اہمیت ہے۔ چنانچہ عموماً وہ اپنے دروس وخطابات اور مضامین وتحریرات میں جماعتی لٹریچر کی اشاعت پر زوردیتے ہیں اور ہمہ وقت اس کی طباعت کی فکر ان کو دامن گیر رہتی۔
چنانچہ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کی سالانہ کانفرنس کے موقع پر اپنے خطبۂ صدارت میں فرماتے ہیں:
”بحث اور مناظرات کا دور گزرچکا۔ اب اس کی افادی حیثیت مشتبہ ہے، آپ اب سنجیدہ اور مدلل لٹریچر شائع فرمائیے، جسے لوگ گھروں میں بیٹھ کر سکون سے پڑھیں۔ وہ دلوں پر اثر کرے۔ مفید لٹریچر بڑی مؤثر قوت ہے، آپ ا س سے دماغوں میں انقلاب پیدا کرسکتے ہیں، اذہان کو درست کر سکتے ہیں۔ نواب صدیق حسن خاں، مولانا حافظ محمد لکھوی، مولانا عبدالستار فیروز وٹواں کی تصانیف نے ہزاروں افراد کے عقیدے درست کردیے۔ “