کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 66
’’اس وقت تک (احکام شریعت میں حدیث کا مقام) اس کی دس قسطیں آ چکی ہیں اور ہم (قارئین) کو مزید تشنگی محسوس ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ اس کو مزید اری رکھتے ہوئے ہر پہلو کی اچھی طرح وضاحت کر دینی چاہیے اور اس کے ختم ہونے کے بعد اس کو بھی چھپوا کر عوام الناس میں تقسیم کیا جائے۔ ‘‘ (الاعتصام، لاہور، ص: 11، 56؍مئی، 1964ء)
حضرت سلفی رحمہ اللہ نے جس موضوع پر بھی لکھا، اس میں علمی رسوخ، منہجِ سلف کی پاسداری، ادبی کمال، طعن وتشنیع سے احتراز، ذاتیات پر کیچڑ اچھالنے سے گریز اور مخالفین کی قدر ومنزلت ملحوظ رکھی اور اپنی بات کو خوش کن اسلوب وتعبیر سے بیان کر دیا۔
جماعتی لٹریچر کی ضرورت واہمیت
مولانا سلفی رحمہ اللہ اپنے کثیر مشاغل اور بے پناہ مصروفیتوں کے باوجود اس حقیقت سےبخوبی آگاہ تھے کہ مسلکی وجماعتی شعور کے احیا کے لیے مفید علمی لٹریچر کی کتنی اہمیت ہے۔ چنانچہ عموماً وہ اپنے دروس وخطابات اور مضامین وتحریرات میں جماعتی لٹریچر کی اشاعت پر زور دیتے اور ہمہ وقت اس کی طباعت کی فکر ن کو دامن گیر رہتی۔
چنانچہ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کی سالانہ کانفرنس کے موقع پر اپنے خطبۂ صدارت میں فرماتے ہیں:
’’ بحث اور مناظرات کا دور گزر گیا۔ اب اس کی افادی حیثیت مشتبہ ہے، آپ اب سنجیدہ اور مدلل لٹریچر شائع فرمائیے، جسے لوگ گھروں میں بیٹھ کر سکون سے پڑھیں۔ وہ دلوں پر اثر کرے۔ مفید لٹریچر بڑی مؤثر قوت ہے، آپ اس سے دماغوں میں انقلاب پیدا کر سکتے ہیں، اذہان کو درست کر سکتے ہیں۔ نواب صدیق حسن خاں، مولانا حافظ محمد لکھوی، مولانا عبد الستار فیروز وٹواں کی تصانیف نے ہزاروں افراد کے عقیدے درست کر دیے۔‘‘