کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 65
٭ نصرت حق کی خاطر مختلف فرق واحزاب کی تردید میں علمائے اہلحدیث نے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا اور مخالف نظریے اور فتنے کی خوب خبر لی۔ علاوہ ازیں اس دور میں کتاب وحکمت کی نشر واشاعت اور توحید وسنت کی دعوت میں جتنے طرق ووسائل مہیا تھے، سب سے استفادہ کیاگیا اورانہیں خلقِ خدا کی ہدایت وراہنمائی کے لیے بروئے کار لایا گیا۔ انھیں جہود مبارکہ او رمساعی ِ جمیلہ کے نتیجے میں ایسے ایسے رجال کار پیدا ہوئے، جنھوں نے ساری زندگی اسی مقدس فریضے کی خاطر تگ ودوکی اور اسی گلشن کی آبیاری میں اپنی عمریں کھپادیں۔ حضرت العلام شیخ الحدیث مولانا محمداسماعیل سلفی رحمہ اللہ بھی اسی قافلہ دعوت وارشاد کے رکن رکین بلکہ اپنے عہد میں اس کے قائد وسرخیل تھے، جن کی ساری توانائیوں کا محور ومرکز ہی اس موروثہ دبستان کی نگہبانی تھا، جو انھیں اپنے اسلاف سے ورثے میں ملا۔ حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی خدمات جلیلہ پرطائرانہ نظر ڈالنے ہی سے عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح تنہا ایک شخص ایسی ذمے داریوں سے عہدہ برآہوسکتا ہے کہ ایک مسجد ومدرسے کے نظم واہتمام سے لے کر ملی وقومی مسائل تک اپنے فرائض کو محسوس کرتا اور مقدور بھر انھیں ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حضرت سلفی رحمہ اللہ ایک مقام پر خود فرماتے ہیں: ”میری مشغولیتوں کا یہ حال ہے کہ مدرسے کی تدریس او راہتمام دونوں میرے متعلق ہیں۔ مقامی جماعت میں بھی کافی حد تک دخل دینا پڑتا ہے۔ شہری اورمقامی حوادثات سے بالکل بے تعلق رہنے کی عادت نہیں، سیاسیات سے بھی تھوڑا بہت تعلق رکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اپنی ذاتی مشغولیتیں اس کے علاوہ ہیں، قوت قدسی کا بھی دعویٰ بالکل نہیں۔۔۔ “ (نگارشات، ص: 559)