کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 64
مقدمۃ التحقیق
برصغیر کے ظلمت کدے میں دعوت توحید اور سلفی منہج وفکر کے احیاء کے لیے ائمہ اہلحدیث کی طرف سے جس جانفشانی کا مظاہرہ کیا گیا، بلاشبہ وہ قرونِ اولیٰ کے قرین وسہیم تھی کہ جس کی بدولت نہ جانے کتنے نفوس راہِ حق سے شناسا ہوئے۔ ((تقبل الله جهودهم وشكر مساعيهم وحشرنا في زمرتهم))
دعوتی جہود ومساعی کے ضمن میں علمائے اہلحدیث کی دور رس نگاہیں تمام اسالیب دعوت پر مرکوز رہیں اور انھوں نے ہرباب میں اپنی ذمے داریاں خوش اسلوبی سے نبھائیں۔
٭ عوام الناس کی ذہنی سطح کے مطابق دعوتی دروس اورمجالس وعظ کےذریعے سے وسیع پیمانے پر توحید وسنت کی اشاعت کا انتظام کیا گیا اورملک کے طول عرض میں اس مقصد کی خاطر ایک طرف اگراجتماعی پروگراموں کا جال بچھا ہوا تھا تو دوسری جانب انفرادی دعوت کی ذمے داریوں کو بھی نظر انداز نہ کیاگیا۔ دعوت و تبلیغ کے ضمن میں داعیان حق کے ذاتی کردار اور شخصی اخلاق نے بھی حیران کن نتائج پیدا کیے۔
٭ تصنیف وتالیف اور صحافت کےمیدان میں ائمہ اہلحدیث نے ایسا گراں قدر ورثہ چھوڑا ہے کہ ایک عالم تااَبدان کی مساعی جمیلہ کا ممنون رہے گا۔
٭ مدارس وجامعات کے ذریعے سے تدریسی خدمات اور تعلیمی اصلاحات کی ایسی روشن مثالیں قائم کی، جنھیں مخالف وموافق ہر ایک نے سراہا اور اپنے معاہدوجامعات کے مناہج میں ان سے استفادہ کیا۔
٭ مناظرات ومباحثات میں بھی علمائے اہلحدیث نے ایسی بے مثال خدمات انجام دیں کہ اپنے تو ایک طرف، مخالفین بھی بوقت ضرورت ہمارے علماء ہی کو آواز دیا کرتے تھے۔