کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 61
مقام ومرتبے کو سراہا اور اُن کی خدمات کی ستائش کی ہے، نیزان کی قدرناشناسی کی مذمت کی ہے۔ مصنف نے امام ذہبی کے کلام کا اُردو ترجمہ نقل کیاہے۔ پھر آگے لکھتے ہیں:
”حافظ ذہبی نے اپنے وقت کے اس مرض کو جس درد انگیز طریقے سے بیان فرمایا اورجس ہمدردی سے ذکر کیا، اس سے ظاہر ہے کہ آٹھویں صدی میں جمود اورشخصیت پرستی کس قدر بڑھ چکی ہے اور حافظ ذہبی اس سے کس قدر خائف اور متاثر ہیں اور اسکےعواقب اور نتائج سے ائمہ حدیث کی دوراندیش نظریں کس قدر آگاہ ہیں؟
”اورعجیب بات یہ ہے کہ اہلحدیث کےخلاف آٹھویں صدی ہجری میں بھی وہی اسلحہ جات استعمال ہوتے تھے، جو اپنی زنگ آلود شکل میں آج استعمال ہورہے ہیں۔ یہ فقیہ نہیں، یہ عطار ہیں۔ اصول سے ناآشنا ہیں، منطق نہیں جانتے، عقلی دلائل سے بے خبر ہیں، علم کلام ان کے اذہان سے بالا ہے!!
”یہ وہی زنگ آلوداور بوسیدہ اوزار ہیں جوفلاسفہ یونان نے متکلمین کے خلاف استعمال کیے اور فقہائے کرام نے ائمہ حدیث کو ان معائب سے مطعون کیا۔ اور اب حضرات ارباب تقلید ان لوگوں کے خلاف استعمال فرماتے ہیں جو اس وقت آزادی فکر کے حامی ہیں، چاہتے ہیں کہ جب ائمہ مجتہدین حق پر ہیں تو اُن سب کے اجتہادات کیوں قابل عمل نہ سمجھے جائیں؟ چار کی تحدید اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے نہیں فرمائی۔ بعض اُوقات حکومتوں نےاپنے مقاصد یا امن عامہ کی حفاظت کے لیے کی، اس کے لیے شرعاً اس کی کوئی سند نہیں پائی گئی۔ “(ص: 129)
تقدیم اپنے دونوں حصوں سمیت کچھ طویل ہوگئی، مگر ابھی اس اشاعت اور اس کے ناشرین سے متعلق چند جملے باقی ہیں۔