کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 60
روشنی ڈالی ہے۔ لکھتے ہیں:
”اس تاریخی پس منظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ فقہی مکاتب فکر اور عقائد کے اختلاف میں جو فرقے نمودار ہوئے، ان میں مختلف مؤثرات کارفرماتھے۔ بعض اوقات ان کی تبدیلیاں علم، نظر، استدلال اور حجت کی وجہ سے ہوئی۔ کبھی ان تبدیلیوں کی محرک معاشی مشکلات تھیں۔ کبھی اقتدار اور ارباب اقتدار کےساتھ تعلق نے مسلک اور خیالات میں تبدیلی کی صورت اختیار کرلی۔ ابتدائی زمانوں میں یہ تبدیلیاں اس کثرت اور اس عجلت سے ہوتی رہیں کہ ان سے کوئی ہیجان بپا نہیں ہوا، بلکہ قدرتی یا طبعی معمول تصور ہوتا رہا۔ عقائدکی تبدیلیاں بعض اوقات غیر معمولی صورت اختیار کرتی رہیں، خصوصاً جب حکومت نے کسی فرقے کی سرپرستی اور حکومتی سطح پر اس فرقے کی حمایت کی۔ “
اس موقع پر مصنف نے عباسی خلفاء میں مامون، واثق اور معتصم کا نام لیا ہے۔ ان حضرات نے ائمہ سنت اور علمائے حدیث پر زندگی کی راہیں تنگ کردیں۔ مصیبت متوکل کے وقت تک قائم رہی۔ متوکل پہلا آدمی ہے جس نے ائمہ حدیث اور داعیان سنت سے پابندیاں اٹھائیں۔ اپنا رجحان بھی بظاہر ائمہ حدیث کی طرف رکھا۔ لیکن اس کے باوجود کسی کو مجبور نہیں کیاکہ وہ ان رجحانات کو ضرور قبو ل کرے۔ (ص:214۔ 215)
امام ذہبی کا خوف:
امام ذہبی کی وفات 748ھ میں ہے، ان کی خدمات کے بیان کا یہ موقع نہیں، لیکن جس طرح امام موصوف نے حدیث، رجال حدیث اور دعوت اسلام کی فکری تاریخ پر کام کیا، اس کی نظیر بہت کم ملے گی۔
موصوف نے”تذکرۃ الحفاظ“میں ابومحمدفضل بن محمد(202ھ) کا تذکرہ لکھنے کے بعد قریب ایک صفحہ میں اس عہد کے فکری واعتقادی حالات لکھے ہیں اور محدثین کے