کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 59
”یہ سب دورِجمود وعصبیت کی نوازشیں ہیں، ورنہ نہ شافعی ایسے کمزور ہیں نہ ان کے اتباع اتنے کم سواد کہ صریح کتاب وسنت کے خلاف فتویٰ دیں۔ یہ معلوم ہے کہ متاخرین فقہائے حنفیہ اور ائمہ اصول سے ائمہ شوافع کی کتاب وسنت پر نظر زیادہ وسیع اورعمیق ہے۔ علمائے حدیث کی تعداد شوافع میں کافی زیادہ ہے۔ “( ص: 126)
ابن خلدون کا تجزیہ:
ابن خلدون کے حوالے سے مصنف نے یہود کے تین فرقوں کا ذکر کیا ہے اور صراحت کی ہے کہ آج اسلام میں بھی تینوں قسم کے آدمی موجود ہیں۔ یعنی غائر نظر والے، ظاہر بین اور زاہد۔ پھراُن کےاندر پیدا ہونے والی خرابیوں کا ذکر کرکے اپنا موقف یوں واضح کرتے ہیں:
”اسلام ایک متحرک دین ہے، اس میں کتاب وسنت کو اساس قرار دے کر ہر دور میں فکری آزادی کی نہ صرف حمایت فرمائی گئی ہے، بلکہ حریت فکر کے لیے ممکن طور پر راہیں ہموار کردی گئی ہیں اور جمود اورتقلید کو روکنے کی ہر کوشش عمل میں لائی گئی۔“ ( ص: 83)
امت کے مذہبی مناقشات کا اثر ہمیشہ مثبت نہ رہا۔ مصنف لکھتے ہیں:
”ائمہ حدیث اور فقہاء کے مباحث، احناف اورشوافع کے مناقشات، اسلام کی خدمت کے بجائے بعض مقامات پر اسلام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ قرآن وسنت کےنصوص تقسیم ہوگئے۔ “( ص:85)
فرقوں کے وجود کے محرکات:
مصنف نے اسلام کے اندر مختلف فرقوں پر اپنی کتاب کے بہت سے مقامات پر گفتگو کی ہے اور اس گفتگو میں فرقوں کے وجود کے محرکات اور اُن کی بعض خصوصیات پر