کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 58
زبان کی تلخی
اہل علم متفق ہیں کہ مسائل میں اختلاف ہوتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کرآج تک یہ چیز موجود رہی ہے، اس کو رحمت کہنے کی بات تو درست نہیں، لیکن دینی وعلمی میدان میں اس کے وقوع کا انکار صحیح نہیں، البتہ اختلاف کی نوعیت ہوتی ہے اور اس کے محرکات واثرات پر گفتگو ہوسکتی ہے۔ اختلاف چھوٹا ہویا بڑا، اسے دور کرنے کے لیے البتہ کچھ اصول وآداب ہیں اور انھیں ہمارے علماء اچھی طرح جانتے ہیں، لیکن عملی سطح پر اُن سے چوک ہوجاتی ہے۔ پھر معرکہ کا رزار گرم ہوجاتا ہے، جس میں گفتگو سے بڑھ کر قتال تک نوبت پہنچتی ہے!
مصنف اختلاف کے اثرات کو منضبط رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”مسائل میں اختلاف ہوسکتا ہے اور مجتہدین کو حق پہنچتا ہے کہ اپنی تحقیق کے مطابق فتویٰ دیں۔ اتباع کو حق ہے کہ اپنے امام کی رائے کے مطابق عمل کریں، مگر تلخ اور ترش زبان تو بے حد نامناسب ہے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے متعلق بھی ایسی زبان اختیار نہیں کرنی چاہیے، چہ جائیکہ ائمہ اجتہاد کے متعلق یہ لب ولہجہ اختیار کیا جائے، پھر بھی بے ادب غیر مقلد ٹھہریں!کیا یہ تقلیدی جمود اور اس میں غلو کا نتیجہ نہیں؟ !“(ص:124)
تلخ بیانی کا محرک:
فقہی مباحث میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے خلاف جو تیز وتند لہجہ اختیار کیاگیا ہے، اس کے متعلق مصنف نے ملاجیون کا یہ قول نقل کیا ہے:
((وقد نقلنا كل هذا على نحو ما قال أسلافنا، وإن كنا لم نجتري عليه))
مصنف نے اسے” عذرِ گناہ“ کے قبیل کی بات قراردیتے ہوئے لکھا ہے: