کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 57
انصاف کی بات مسلک کے اختلاف کے سبب ایک دوسرے پر طعن وتشنیع کی بات اس تحریر میں گزر چکی ہے۔ اسلامی اخلاق وآداب کا اگر یہی اثر ہوکہ علمی مسائل میں اختلاف کے باعث ایک دوسرے پر زبان طعن دراز ہوتو پھر ایسی تعلیم سے کون متاثر ہوگا اور عصر نبوی اور قرونِ خیر کے بے شمار واقعات کی ہم کیا توجیہ کریں گے؟ مسلک کی بنیاد پر یا کسی اور بنیاد پر ہمیں طعن وتشنیع کی قطعاً اجازت نہیں، لیکن بے حد افسوس کی بات ہےکہ جماعتیں اس کا لحاظ نہیں کرتیں۔ مصنف اسی نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”مولانا نے افسوس کا اظہار فرمایا ہے کہ بعض لوگ تقلید کی مخالفت کرتے ہوئے فقہا کو بُرا بھلا کہنے سے نہیں چوکتے۔ “ مصنف کا اس پر یہ تاثر ہے: ”اگر کسی نے ایسا کیا ہے تو یہ حرکت انتہائی مذموم ہے، اس طرح بعض حضرات تقلید کی تائید فرماتے ہوئے ائمہ حدیث پر کیچڑ اُچھالنا شروع کر دیتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ علمائے کرام اُمت کی مشترکہ امانت ہیں، ان کے متعلق بدگوئی، بدزبانی کسی قیمت پر برداشت نہیں ہونی چاہیے۔ “ مصنف نے مذکورہ عبارت کے بعد لکھا ہے: ”بعض علمائے حدیث کے مقام کی رفعتوں کو خاک میں ملانے کا شغل فرما رہے ہیں! یہ علامہ زاہد کوثری کابویا ہوا بیج ہے، جسے پالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کافی عرصے سے(کچھ لوگ) مشقِ ستم میں مشغول ہیں، جس کانتیجہ منکرین حدیث کی تائید کے سوا کچھ نہیں!“(ص:275۔ 276)