کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 56
قریب دس صفحات لکھے ہیں، ان میں خود شاہ صاحب، شاہ عبدالعزیز، سید احمد شہید، ابن عبدالبر، شہرستانی اورابن خلدون وغیرہ ائمہ اہل علم کا حوالہ دیاہے۔ اس ضمن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور اُن کے شاگرد ابن ا لقیم کا حوالہ بھی ہے۔ اس مبحث پر سیر حاصل گفتگو کے بعد مصنف نے ایک اور الزام کی تردید کی ہے، یعنی محدثین فقہ نہیں جانتے! مصنف نے تدوینِ حدیث سے پہلے اوربعد کے حالات پر روشنی ڈالی ہے۔ لکھتے ہیں: ”اس کے بعد تدوینِ حدیث کا دور شروع ہوتا ہے، اس وقت کی مصنفات میں احادیث پر تبویب کی گئی ہے۔ صحیح بخاری، نسائی، ترمذی، موطا، ابن ماجہ وغیرہ کے مصنفین نے تبویب کی ہے۔ احادیث سے مسائل استنباط فرمائے ہیں، جس سے انسان میں قوتِ استنباط پیدا ہوتی ہے۔ مذاہب اربعہ کی کتب فقہ تو مسائل کی نقل ہے، ان کتابوں سے استنباط کا ملکہ مشکل سے پیدا ہوتا ہے۔ ان ضخیم کتابوں کے ہوتے ہوئے کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ فقیہ نہیں او ران کا کام الفاظ حدیث کا حفظ تھا؟!“(ص:179) محدثین کی فقہ سے ناواقفیت کی بات کہتے ہوئے آدمی شاید غور نہیں کرتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اس کا اثر کیا ہوگا! امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی اس الزام کا نشانہ بنے۔ ((نسأل الله العافية)) مصنف نے اس پر بھی اپنا تاثر ظاہر کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تبویب نے بڑے بڑے ارباب فقہ وبصیرت کو حیرت میں ڈال دیاہے۔ باقی محدثین :ابوداود، نسائی، ترمذی، موطا، ابن ماجہ کی تبویب نے ان کے تفقہ اور فقہی بصیرت کو واضح کردیا ہے۔ جہاں تک احادیث سے مسائل کے استخراج اور فہم کا تعلق ہے، ائمہ حدیث کی تبویب میں صحیح اور معیاری فقہ پائی جاتی ہے۔ “(ص:180)