کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 55
کوئی فائدہ نہیں۔ مسلمانوں کی فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ایک امر واقعہ ہے، جس کا اقرار نہ چاہتے ہوئے بھی کرنا پڑتا ہے۔ علامہ اقبال اور بہت سے مخلصین ومصلحین کی تمنا کے مطابق اگرتمام مسلمان قرون خیر کی طرح متحد ہوتے تو اس سے بہتر کیا ہوسکتا تھا، لیکن شاید ابھی مخلصین کی تمنا کے پورا ہونے کا وقت نہیں آیا ہے۔ جمال الدین افغانی کے سوانح نگاروں نے اُن کی طرف یہ جملہ منسوب کیا ہے، جو انھوں نے مسلمانوں کے بارے میں شاید جھلّا کر کہا تھا: ((اتفقوا على أن لا يتفقوا)) یعنی مسلمان عدم اتفاق پر متفق ہیں! یہ داستان بڑی تلخ ہے اور اس سے پیچھا بھی نہیں چھوٹتا ہے۔ اتحاد کی ضرورت، فوائد اور وسائل پر اہل قلم کی تحریریں بہت زیادہ ہیں۔ دیکھیے!اللہ رب العزت ان کے اندر کب تاثیر پیداکرتا ہے اوراُمت اپنے بنیادی مسائل میں ایک پلیٹ فارم پر کب جمع ہوتی ہے! اتحاد کی راہ میں، جیسا کہ اشارہ گزرا، دشواریاں متعدد ہیں، لیکن ان کا دور کرنا مسلمانوں کی استطاعت سے باہر نہیں۔ ان دشواریوں میں ایک دشواری یہ ہے کہ ایک جماعت یا فرقہ دوسرے فرقے سے متعلق کوئی غلط بات کہے۔ اسلامی فرقوں میں یہ مرض قدیم نہ ہو تو سخت بہت ہے۔ مثال کے طور پر جماعت اہلحدیث کے متعلق یہ بات مشہور کی گئی ہے: ”اہل حدیث کوئی مکتب فکر نہیں، بلکہ حفاظِ حدیث اور اس فن کے ماہرین کو اہلحدیث کا نام دیا گیا ہے۔ “ یہ ایک واضح حقیقت کا انکار اور اہلحدیث کے خلاف بے حد جارحانہ اقدام ہے، اس طرح کی باتوں سے عوام میں مقبولیت تو مل سکتی ہے، لیکن علمی دنیا میں اس کا بے حد بُرا اثر ہوگا۔ اس الزام یاتلبیس پر مصنف بہت دُکھی ہیں اور اس کی تردید میں