کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 53
وغیرہ میں اسےبار بار دہرایا اور مختلف طرق سے اس فقہی جمود کو توڑنے کی کوشش فرمائی اور احتجاج فرمایا کہ سنت کے ساتھ یہ بے انصافی اور ترجیحی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ بڑا ہی نامناسب ہے کہ غیر معصوم انسانوں کے بنائے ہوئے اصول تو دین کی اساس قرارپائیں اور سنت، جو فی الحقیقت وحی اور دین کی بنیاد ہے، وہ ان مصنوعی اصول کے سامنے یتیم اور لاوارث قرارپائے اور سنت سے ایسا سلوک وہ لوگ کریں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں!“(ص:102)
آگے لکھتے ہیں:
”دراصل حضرات فقہائے عراق، خصوصاً اَتباع فی قاضی عیسیٰ بن ابان، سنت سے ویسے ہی کچھ ناراض ہیں۔ وہ رائے کے دروازوں کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں، سنت کے ابواب بند ہوتے ہیں تو ہولیں۔ اس لیے حضرت شاہ ولی اللہ جیسا بیدارمغز، معاملہ فہم، دوراندیش، تجدیدی ذہن رکھنے والا آدمی پورے ماحول کی اس نامناسب کیفیت پر کیسے مطمئن ہوسکتا تھا؟“( ص:102)
اصول فقہ کے ایک مسئلے پر مصنف کا تبصرہ:
تعدیل ارکان کو ضروری نہیں مانا جاتا کہ اس سے کتاب اللہ پر زیادتی لازم آتی ہے۔ اصول کا یہ معروف مسئلہ ہے۔ مصنف اپنا نقطہ نظر یوں واضح کرتے ہیں:
”قران کی عظمت واقعی ضروری ہے، لیکن اس آڑ میں مقام نبوت کا تعطل ہوجائے، پیغمبر کو یہ حق بھی نہ رہے کہ وہ قرآن عزیز کے مفہوم کی تعیین فرمائیں، کسی عمل کی شرعی ہیٔت کا اظہار یا کوئی ایسا حکم جس سے قرآن عزیز نے سکوت فرمایا ہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے بیان نہ فرماسکیں، خود صاحب وحی بھی اپنی وحی کا مطلب بیان نہ فرماسکیں، مجتہد اورفقیہ، عالم اور