کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 525
میں ڈالی جاتی تھی اور جو شخص خود کسی امر کی تدبیر کی طرف متوجہ ہو، خواہ وہ امر دینی ہو یا دنیاوی، تو یہ صورت بالکل اس کے خلاف ہے۔ اور جس شخص پر یہ مقام کھل جاتا ہے، وہ جانتا ہے، ہاں بمقتضائے ((ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ))زنا کے وسوسے سے اپنی بیوی سے مجامعت کا خیال بہتر ہے اور شیخ یا اس جیسے اور بزرگوں کی طرف خواہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں، اپنی ہمت کو لگا دینا، اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستفرق ہونے سے زیادہ برا ہے، کیونکہ شیخ کا خیال تو تعظیم اور بزرگی کے ساتھ انسان کے دل میں چمٹ جاتا ہے اور بیل اور گدھے کے خیال میں نہ تو اس قدر چسپیدگی ہوتی ہے نہ تعظیم، بلکہ حقیر اور ذلیل ہوتا ہے اور غیر کی یہ تعظیم اور بزرگی شرک کی طرف لے جاتی ہے۔ حاصل کلام یہاں وسوسوں کے تفادت کا بیان کرنا مقصود ہے۔ اصل کتاب فارسی میں ہے، میں نے بقدر ضرورت ترجمہ نقل کردیا ہے۔ سید صاحب یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگوں کی عظمت اور بزرگی کا ذکر کرتے ہیں، بریلوی مولوی صاحبان نے اسے توہین بنا ڈالا۔ سمجھ اُلٹ جائے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ مَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ ۚ!اس امر پر تمام مسلمان متفق ہیں کہ نماز خشوع اور انابت سے ادا کرنی چاہیے۔ وسوسے اور خیالات نماز میں نقصان پیدا کرتے ہیں۔ یہی مسئلہ سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ نےذکر فرمایا۔ سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ ردی اور حقیر چیز کا خیال اس لیے زیادہ مضر نہیں کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ معزز اور محبوب چیز یں زیادہ مضر ہیں کہ ان کی عزت اور محبت دل پر غالب ہوتی ہے۔ آپ ان بریلوی علمائے کرام سے فرمائیں کہ ان کے ہاں کیا صورت ہوگی، کیا گاؤوخر کے تصور سے نماز میں صرف نقص پیدا ہو گا اور بزرگوں کے تصور سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا یا بریلوی حضرات خشوع کی نماز میں