کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 524
مرتب فر ما لیتے تھے، [1]ان کی نماز میں ان کے خشوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اس لیے بزرگوں اور اہل اللہ کی ریس کر کے اپنی نماز نہیں خراب کرنی چاہیے۔ سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے وسوسے کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک وسوسہ لاعلاج ہے، اس کے لیے یا تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرے یا کسی کامل پیر کی صحبت میں کچھ عرصہ گزارے۔ دوسرا قابل علاج ہے، اس کا علاج ذکر فرمایا ہے۔ سید صاحب فرماتے ہیں: ”اور جو کچھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نماز میں سامان لشکر کی تدبیر کیا کرتے تھے، سو اس قصے سے مغرور ہو کر اپنی نماز کو تباہ نہ کرنا چاہیے۔ ؎ کار پاکاں را قیاس از خود مگیر گرچہ ماند در نوشتن شیر و شیر[2] ”حضرت خضر علیہ السلام کے لیے کشتی توڑنے اور بے گناہ بچے کو مارنے ڈالنے میں بڑا ثواب تھا اور دوسروں کے لیے نہایت درجے کا گناہ ہے۔ جناب فاروق رضی اللہ عنہ کا وہ درجہ تھا کہ لشکر کی تیاری آپ کی نماز میں خلل نہیں ڈالتی تھی، [3]اس لیے کہ وہ تدبیر اللہ جل شانہ کے الہامات سے آپ رضی اللہ عنہ کے دل
[1] ۔ صحيح البخاري، رقم الحديث (1/40-8)تعليقاً مصنف ابن ابي شيبه (2/18)تغليق التعليق(2/448) [2] ۔ نیک لوگوں کے عمل کو اپنے اوپر قیاس نہ کر، اگر چہ شیر (درندہ) اور شیر (دودھ) ایک ہی طرح لکھے جاتے ہیں۔ [3] ۔ مگر یہ علی الاطلاق صحیح نہیں بلکہ بعض اوقات اس قسم کے خیالات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نماز میں بھی خلل ڈال دیتے تھے، چنانچہ ہمام بن حارث روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مغرب کی نماز پڑھائی اور قراءت چھوڑ گئے۔ فارغ ہونے کے بعد نماز یوں نے کہا: آپ قراءت چھوڑ گئے ہیں، فرمایا: میں ایک تجارتی قافلے کے متلق سوچ رہا تھا، جسے میں نے مدینے سے رخصت کیا اور شام تک پہنچایا۔ پھر دوباراہ قراءت کے ساتھ نماز پڑھائی اور فرمایا: جس نماز میں قراءت نہیں، وہ نماز نہیں فاروق اعظم سے ثقہ راویوں نے یہ واقعہ مختلف الفاظ سے نقل کیا ہے۔ جسے حافظ ابن حجر نے مختلف حالات پر محمول کیا ہے۔ (فتح الباری طبع دہلی :5/634) محمد اسحاق عفی عنہ۔