کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 523
عبادت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بطور ((عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ)) آئے تو کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ یہ اللہ کی عظمت سے نہیں ٹکراتا، بلکہ اس میں ان کی عبدیت اور رسالت کا اقرار ہے، اسی طرح مغضوب اور منعم علیہ گروہوں کے خیال سے بھی اللہ کی عظمت میں فرق نہیں آتا۔ انعام بھی احتیاج ہے اور غضب میں ان نافرمانیوں کی تحقیر ہے، اس لحاظ سے یہ خیال اللہ کی عظمت سے نہیں ٹکراتا، لیکن اگر کسی ولی، بزرگ یا نبی کا خیال آجائے تو ان کی عظمت ان کی بزرگی کا خیال اور تصور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بزرگی سے ٹکرائے گا، آپ اس کے لیے ((أعوذ)) پڑھ سکتے ہیں نہ ((لاحول))اس کے خلاف اگر بیل گدھے یا کسی ذلیل اور حقیر چیز کا خیال آجائے، آپ فوراً ((لاحول))یا((أعوذ)) پڑھ کر اسے دور کردیں گے، اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور عزت اس سے متاثر نہیں ہوگی۔ سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے وسوسہ کوئی بھی نماز میں نہ آنا چاہیے نہ ہی لانا چاہیے، لیکن بعض وسوسے نماز میں زیادہ خلل پیدا کرتے ہیں بعض کم، صوفیانہ لحاظ سے سید صاحب نے واقعی عجیب نکتہ بیان فرمایا ہے، لیکن کندذہن آدمی جو اتنی گہرائی تک نہ جا سکے، وہ کفر کے فتوے لگانا شروع کردے گا۔ مقابلہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور گاؤ وخر میں نہیں، مقابلہ وسوسے کے نقصان اور مضرت میں ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ گرم لوہا جلانے کے لحاظ سے گرم پانی سے زیادہ مضر ہے۔ مقابلہ لوہے اور پانی کی قیمت میں نہیں ہوگا، بلکہ لوہے اور پانی میں گرمی کی تاثیر کا ہوگا۔ سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس عمیق اور لطیف بات کو سمجھانے کے لیے متعدد صفحے لکھے ہیں، لیکن بریلوی علماء کا بغیض ذہن سچی بات سمجھنے میں حائل ہو گیا۔ سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی پوری بات سمجھنے کے لیے اگر آپ پسند فرمائیں تو اصل کتاب بھیج دوں، ممکن ہے اللہ تعالیٰ آپ کا ذہن کھول دے۔ سید صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ طبائع کے لحاظ سے وسوسے کا اثر ہر طبیعت پر مختلف ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسے بزرگ نماز میں لشکر