کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 52
اعتنا کے باوجود قیاس کو شرعی حجت سمجھتے ہیں اور ان قیاسی ادلہ سے پوری طرح استفادے کے قائل ہیں۔ ان اصول کے احتوا اور ممکن عموم اور ہمہ گیری کے معترف ہیں، لیکن نصوصِ شرعیہ کو ان اصول پر قربان نہیں کرتے۔ “
کتب فقہ میں ایسے مسائل مذکور ہیں جن کا کتاب وسنت کی نصوص ساتھ نہیں دیتیں، لیکن فقہاء ان کو تسلیم کرنے پر مصر رہتے ہیں۔ مصنف نے اس طرح کی متعدد مثالیں پیش کرکے انصاف کی د عوت دی ہے اور جدال پسند علماء کے رویے پر افسوس ظاہر کیا ہے۔، لکھتے ہیں:
”کچھ شک نہیں جب علماء بحث ومناظرہ کے موڈ میں آجائیں تو بھیڑیا حلال کرسکتے ہیں، مرغی حرام فرماسکتے ہیں، مگر عقلِ سلیم اور میزان اعتدال تو موشگافیوں اور نکتہ نوازیوں کا ساتھ نہیں دے سکتی، اس لیے محدثین نے قیاس کی حجیت کے باوجود اس دو عملی سے بچنے کے لیے پوری احتیاط سے کام لیا ہے۔ “( ص:95)
علماء کے اصول:
علماء نے تفسیر وحدیث وفقہ کے لیے جو اصول وضع کیے ہیں، ان کی اہمیت ہے، اس سلسلے میں علماء کی نیت پر شبہہ کا سوال نہیں، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے اندر جو کچھ فرمایا ہے، یقیناً اس کا مقام انسان کے وضع کردہ اصولوں سے بلند ہے۔ مصنف اسی نقطے پر اپنا تاثر ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حکم کے مطابق احکام کی وضاحت فرمائیں، لیکن وہ بیان ہمارے خود ساختہ اصول کے ہم پلہ نہ ہوسکے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ عجیب تھا۔
اس لیے”حجة الله“ ” الخير الكثير“ ”تفهيمات“ ”مصفي“ ”مسويٰ“ ”عقد الجيد“ ”الإنصاف“