کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 518
سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بے چارے علم و اخلاق کے لحاظ سے بے حد مفلس اور مفلوک الحال ہیں، بلکہ یتیم! حسد، کبراور مسلمانوں میں تفریق اندازی اور شقاق ان کے محاسن کا خاص حصہ ہیں۔ یہ اپنی ان عادات کی وجہ سے اپنے حلقے میں بھی بدنام ہیں۔ خود ان کے ہم خیال بھی ان کی عادت سے نالاں ہیں۔ چند آبرو باختہ لڑکے ان کے ارد گرد جمع ہیں، ان کی وجہ سے بریلوی شرفا کی آبرو بھی ان سے محفوظ نہیں۔ ان کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کے عقیدت مند ان کے سوا کسی کی بات سنیں نہ ان تہمتوں کی تحقیق کی جائے، جو وہ اپنے حلقہ اثر میں اپنے خلاف مکاتب فکر کے متعلق تراشے رہتے ہیں۔ اپنی اس تہمت تراشی اور زبان درازی کی وجہ سے وہ قانونی طور پر سزا بھی پاچکے ہیں۔ یہ سزا سپریم کورٹ تک بھی معاف نہ ہو سکی، غالباً کچھ تخفیف ہوئی۔ (1965ء)کی جنگ میں فتوی بازی کی پاداش میں گرفتار ہوئے، غالباً سفارشی معافی کے بعد رہا ہوئے۔ مولانا غلام اللہ صاحب پر اتہام لگایا، کیس ہوا، معافی مانگی۔ خدا کا شکر ہے کہ ان کے حلقہ اثر کے ایک بزرگ نے ایک تہمت کے متعلق تحقیق کی کوشش کی ہے۔ ان کا سوال بعینہٖ اور اس کا جواب ذیل میں درج کیے جاتے ہیں، امید ہے مولوی صادق صاحب انھیں معاف فرما دیں گے۔ ہماری طرف سے بریلوی حضرات کے لیے صدائے عام ہے، ان کے ہاں جو تہمتیں ہمارے متعلق تراشی جائیں، ہم سے تحقیق کریں، ہم کوشش کریں گے۔ کہ ان کو حقیقت حال سے آگاہ کیا جائے، ہم مرزا عمر بیگ صاحب کے مکرر شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہمیں حق کے اظہار کا موقع دیا(احسان الٰہی ظہیر) سوال۔ مولانا ومفتی محمد اسماعیل صاحب (صدر جماعت اہل حدیث مغربی پاکستان) چوک بنائیں گوجرانوالہ