کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 513
مروج تقلید ہے، دوسری بیماری گوارا نہ کرنے کی عادت۔ غرض اس وجوب اور پابندی کو آپ ختم کردیں، ساری دقتیں دور ہو جائیں گی، بعض نظریاتی دقتیں عمل سےخود بخود دور ہو جائیں گی، بلکہ اس صدی کے سفر میں بہت کچھ درست ہو چکا ہے۔ اختلاف رائے کو گوارا فرمائیے، تفرقہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اختلاف اور تفرقہ میں الف تفسیری نہیں، بلکہ فقہی اختلاف رہنا چاہے اور تفرقہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں،
11۔ اجتہاد کسی عالم کا ہو، اسے کتاب و سنت پر پیش ہونا چاہیے۔ اگر کتاب و سنت میں صراحت موجود نہ ہو تو عوام کو کسی کے اجتہاد کا پابند نہ کیجیے۔ جس پرحسب مصالح عمل کرے، اس پر کوئی ملامت اور ضیق نہ ہونی چاہیے، عوام بہر حال علما کی طرف رجوع کریں گے۔ انھیں عادت ڈالنی چاہیے کہ مشہور مجتہدین یا متعارف فقہوں کی بجائے شریعت یا کتاب و سنت کے نام سے مسائل دریافت کریں اور علماء انہیں اپنی صوابد ید کے مطابق جواب دیں۔ اگر مقلد قرآن و حدیث کے خلاف مسائل چھوڑنے پر آمادہ ہو جائے تو یہ تقلید کی قابل برداشت اور مناسب ترین صورت ہے۔ میاں صاحب رحمہ اللہ علیہ نے اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے گوارا فرمایا ہے۔ تجربے کی بنا پر یہ ضروری استفتا مخصوص فقہوں کی بجائے شریعت کی بنا پر ہونا چاہیے۔ میاں صاحب نے”معیار“ کے اس مقام میں اصلاح فرما دی تھی۔ [1]
12۔ ابن حزم قیاس کے بالکل منکر ہیں، اہلحدیث قیاس کو مانتے ہیں۔ نظائر کے حکم میں مساوات کو مانتے ہیں، لیکن اگر قیاس کہیں قرآن اور سنت سے متصادم ہو جائےتو اہلحدیث نصوص کو مقدم سمجھتے ہیں۔ مدت رضاع احناف کے نزدیک ڈھائی سال اور خمر کا سرکہ بنانا نصوص کے خلاف ہے۔ [2]اس میں نصوص مقدم ہو نگی۔
13۔ اس کا جواب نمبر(12) میں آچکا ہے قیاس نصوص کے تابع ہو تو قابل قبول ہے،
[1] ۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: فتاوي نذيريه(1/172)
[2] ۔ دیکھیں:البقرة:233) صحيح مسلم رقم الحديث(1983)