کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 512
”ہم یقیناً جانتے ہیں کہ ایک آدمی بھی اس وقت اس طرح کا مقلد نہیں تھا، جو ایک ہی شخص کے تمام مسائل کو قبول کرے اور باقی علما کے فتوؤں کو رد کردے اور ہمیں یقیناً معلوم ہے کہ تابعین اور تبع تابعین کے زمانے کا بھی یہی حال تھا۔ ایک ایسے آدمی کا پتا دے کہ حضرات مقلدین ہماری تکذیب کریں جو اس ناہموار راہ پر چل رہا ہو۔ یہ بدعت چوتھی صدی کی پیدا وار ہے، جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذمت فرمائی ہے۔ “ ان گزارشات سے آپ پوری طرح سوچ لیں کہ مجتہدین کی تقسیم، اصول فقہ کی تقسیم کا تصور کہاں سے پیدا ہوا؟ یہ صرف تار عنکبوت کا ایک حصار ہے جو تقلید شخصی کی کمزور عمارت کو بچانے کے لیے بنایا گیا، جس سے آپ کا ذہن اس سوال کی طرف منتقل کیونکر ہوا؟ 9۔ اس کا جواب قربیاً نمبر(8) میں ہو چکا ہے۔ واقعی اگر ان مخصوص فقہوں کی طرح فقہ اہلحدیث کی پابندی واجب قراردی جاتی تو یہ بھی تقلید ہی ہوتی۔ 10۔ میں نے عرض کیا ہے سابقہ ساری فقہیں قابل عمل ہیں، ظروف و احوال کے لحاظ سے اہل علم ان سب پر بلا تخصیص عمل کریں گے۔ فروعی اختلافات کو گوارہ کرنے کی عادت ڈالیں کے، اس سے قرون خیر کی وحدت قائم ہو گی۔ یہ نزاع تقلید کی پیدا وار ہے، جس کی وجہ سے تنگ نظری اذہان پر محیط ہو چکی ہے۔ بیماری کا نام صحت سمجھ لیا گیا ہے، آپ اس جامد اختلاف کا نام یکجہتی فرماتے ہیں۔ عجیب ہے؟! جب چاروں مذاہب ”حق پر ہیں“اور دنیا میں موجود ہیں تو یکجہتی جناب نے کہاں سے سمجھی؟ بلکہ چار جہتی کو تو حق سمجھ کر گوارا کیا گیا ہے۔ اگر اس میں مسلک اہلحدیث کو بھی اسی طرح گوارا کر لیا جائے تو یہ مصطلح یکجہتی پھر بھی قائم رہے گی، ذرا اس میں وسعت ہو جائے گی۔ کاش حضرات علمائے کرام اسے گوارا کریں! پہلی بیماری