کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 511
يشتغلون بالحديث فيتخلص اليهم من احاديث النبي صلي الله عليه وسلم وآثار الصحابة ما لا يحتاجون معه الي شئي آخر۔۔۔ الخ)) (حجة الله البالغه :1/122)
یعنی دوسری صدی کے بعد تخریج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، لیکن چوتھی صدی تک لوگ تقلید پر جمع نہیں ہوئے تھے، نہ ایک مذہب کی تقلید اور اس پر تفقہ کا خیال اور چرچا ہوا تھا اس وقت علما بھی تھے اور عوام بھی۔ عوام کا یہ حال تھا کہ اتفاقی مسائل اپنے بزرگوں اور اپنے شہر کے علماء سے دریافت کرتے اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع فرماتے، جیسے وضو، نماز، زکاۃ کے متفقہ مسائل، اور جب کوئی خاص حادثہ ہو جاتا تو بلا تعیین مذہب کسی مفتی سے دریافت فرما لیتے۔ خواص کا یہ حال تھا، وہ یعنی اہلحدیث کو حدیث میں غور و فکر کے بعد ایسی احادیث و آثار ان کو مل جاتے جس کی وجہ سے کسی دوسری چیز کی انھیں ضرورت ہی نہ رہتی۔
یہ صحیح اسلام کی صورت ہے، اس کے ہوتے کسی جدید فقہ کی تدوین کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ موجودہ فقہوں پر بلا تعیین عمل کیا جائے۔ لوگوں کو ایک مذہب کی پابندی پر خواہ مخواہ تنگ نہ کیا جائے تو مسلک اہلحدیث کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔
اسی نہج پر حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ (751ھ) کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں۔
((فإنا نعلم بالضرورة، أنه لم يكن في عصر الصحابة، رجل واحد اتخذ رجلاً منهم يقلده في جميع أقواله، فلم يسقط منها شيئاً، وأسقط أقوال غيره، فلم يأخذ منها شيئاً ونعلم بالضرورة أن هذا لم يكن في عصر التابعين ولا تابعي التابعين، فليكذبنا المقلدون برجل واحد سلك سبيلهم الوخيمة في القرون الفضيلة على لسان رسول الله صَلَّى الله عليه وسلم۔ وإنما حدثت هذه البدعة في القرن الرابع المذموم على لسان النبي صَلَّى الله عليه وسلم))
(اعلام الموقعين :1/222)