کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 51
صاحب نے جس ماحول میں تربیت پائی تھی، وہ فقہی جمود کا دور تھا، اس وقت کا بہت بڑا متدین اور روشن خیال بادشاہ اسلام کی جو سب سے بڑی خدمت کرسکا، وہ فتاویٰ عالمگیری کی تالیف تھی، جسے فتاویٰ ہندیہ کہا جاتا ہے۔
”گویا اس دیرینہ جمود میں ایک محدود مقام تک حرکت کی کوشش کی گئی۔ قرآن اور سنت یا دوسرے ائمہ کے مذاہب کے لحاظ سے شرعی مصالح کا جائز ہ لینے کی کوشش نہیں کی گئی۔
”ایسامعلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کےدروس اور طریقِ افتا سے طالب علم اور اس وقت کے عوام مطمئن تھے، لیکن خود شاہ صاحب مطمئن نہ تھے۔ جس چشمے سے عام دنیا سیرابی حاصل کررہی ہے، وہ چشمہ خود اپنی سوتوں میں تشنگی اور خشک سالی محسوس کررہا تھا۔
”نبوت جب ختم ہوچکی ہے تو صرف ترجمانی اور تعبیر کو کیوں نبوت کی طرح واجبی اور دوامی حیثیت دی جائے؟امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، اما م مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ دین کے خادم ہیں اور اسلام کے ترجمان۔ دین ان کا دست نگر اور خادم نہیں کہ ان کے ارشادات اور احکام کے لیے ہر وقت چشم براہ رہے۔ “
قیاس کے سلسلے میں مصنف کا واضح موقف:
جن مسائل کے سلسلے میں جماعت اہلحدیث پر طرح طرح کے الزام عائد کیے جاتے ہیں، ان میں ایک مسئلہ قیاس کا بھی ہے۔
مصنف سورۃ الشوریٰ کی آیت(17) پر گفتگو کے ضمن میں لکھتے ہیں:
”اس لیے نہ قیاس کی ضرورت سے انکار کیا جاسکتاہے نہ اپنے مقام پر اس کی حجیت اور افادیت کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ ائمہ حدیث ظواہر حدیث کےساتھ پوری عقیدت، الفاظ اوراُن کے لغوی معانی کے ساتھ پورے