کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 509
ہے، اہلحدیث علماء کا بھی یہی حال ہے۔ مولانا سید نذیر حسین، مولانا شمس الحق، مولانا شرف الحق ڈیانوی، مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، مولانا حافظ محمد لکھوی، مولانا حافظ عبدالمنان صاحب وزیر آبادی، مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی کو شاید آنے والے لوگ امام سمجھیں اور مجتہد ماننے لگیں میں اس معاملے میں قطعاً مردم شماری یا مجتہد شماری کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ آپ قانون کے طالب علم ہیں، مجتہد شماری سے پہلے اس اصطلاح کے مفہوم پر غور فرمائیں۔ مجتہد کو اصطلاحاً جن علوم کا مکلف قراردیا گیا ہے، اس لحاظ سے تو صحابہ میں کوئی مجتہد معلوم نہیں ہوتا، بلکہ تابعین میں بھی کسی کو مجتہدکہنا مشکل ہے، حتی کہ مسلمہ ائمہ اجتہاد ان مصطلح راہوں سے مقام اجتہاد پر فائز نہیں ہوئے۔ عجیب یہ ہے کہ یہ اصطلاحی پابندیاں ائمہ اجتہاد پر وہ حضرات عائد فرما رہے ہیں جو خود مجتہد نہیں! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا: ((أن من أشراط الساعة أن تلد الأمة ربتها))[1] ارباب تقلید ائمہ اجتہاد کے لیے اجتہاد کی راہیں تجویز فرماتے ہیں، پھر یکم محرم 401 ہجری سے اجتہاد کو کلیتاً بند فرماتے ہیں، حالانکہ علوم اجتہاداب بھی موجود ہیں!! ((ولكن من عصر اربع مائة من الهجرة النبوية۔ علي صاحبها ازكي الصلاة والسلام۔ قال العلماء الاعلام، كما ينقل عن علماء الحنفية، ان باب الاجتهاد قد انسد من ذلك التاريخ)) (رساله حميديه، ص:328) علمائے حنفیہ نے فرمایا کہ چوتھی صدی کے ختم ہوتے ہی اجتہاد کا دروازہ مقفل ہو گیا۔ ہم جب مجتہد کی تقلید ہی پسند نہیں کرتے، ہم مجتہد شماری کی سردردی کیوں کریں؟ ہمیں قرون خیر کا ایک غریب مسلمان تصور فرمائیے جو اپنے وقت کے علما سے
[1] ۔ دیکھیں:صحيح البخاري (50)صحيح مسلم(9)مسند الشامبين (3/345) یعنی قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے گی۔