کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 507
جزئیات یا اختیار علم و بصیرت کی بنا پر عمل میں آئے، اس کے باوجود ان مختلف نظریات کو گوارا کرنا اور ائمہ کے علوم کا احترام اور ان سے استفادہ اس تحریک کی روح ہے۔ اس بنیادی اور اجمالی گزارش کے بعد استفسارات کے جواب ملاحظہ فرمائیں :
1۔ مسلک اہلحدیث ایک ایسی دعوت ہے جس کی بنیاد اصول اور فروع یعنی عقائد اور اعمال میں ظاہر کتاب و سنت اور ائمہ سلف یعنی صحابہ کرام کی روش پرہے، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخصیت کے نام پر دعوت کی بنیاد نہیں رکھی گئی۔
2۔ اصول فقہ میں ”الرساله للامام الشافعي“، ”روضة الناظرلابن قدامة“، ”ارشاد الفحول للشوكاني“، ”حصول المامول لصديق حسن“، ”الاحكام لابن حزم“، ”الاحكام للامدي“، ”التوضيع والتلويح للتفتازاني“، ”كشف الاسرار“، ”شرح اصول البزدوي“، ”قواعد الاحكام لعز بن عبدالسلام“، ”القواعدلابن رجب“، ”القواعدوالفوائد الاصولية لعلي بن عباس البعلي“، (803ھ)، ”القواعد النورانية لابن تيميه“، ”موافقات شاطبي“وغيره قدمائے احناف کی کتابوں میں اصول کی حیثیت سے بیان ہوئے ہیں، جیسے مسلم الثبوت وغیرہ، متاخرین حنفیہ ملا جیون، شاشی وغیرہ کی تصانیف محققانہ نہیں۔ کاتب چلپی حنفی نے کشف الظنون میں فرمایا:
”سب سے پہلے اصول فقہ پر معتزلہ اور اہلحدیث نے لکھا، لیکن ان کی کتابوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ معتزلہ عقائد میں ہمارے مخالف ہیں اور اہلحدیث فروع میں۔ “[1]
اصول فقہ میں اختلاف خاص نوعیت کا ہے۔ فن کے ماہر اس سے غلطی نہیں کھا سکتے۔ اس کے علاوہ بھی اہلحدیث نے اصول فقہ میں کافی ذخیرہ جمع فرمایا: ہر حق پسند آدمی کو اس میں وقت محسوس ہوتی ہے، اس لیے کہ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو یوسف کے تلا مذہ
[1] ۔ کشف الظنون (1/81)