کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 504
10۔ مسلک اہلحدیث کی فقہ اگر مرتب و مدون نہیں ہے تو علمائے اہلحدیث اجتہادی مسائل میں، جن کی تعداد لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے، کیسے فتویٰ دیتے ہیں؟ یا امام فقہ کے قول و اجتہاد پر فتوی دیتے ہیں؟اگر دوسری صورت ہے تو کیا یہ اس امام فقہ کی تقلید کروانی نہیں ہے؟اگر پہلی صورت ہے تو کیا ایسا کرنے سے امت میں دونظم اور یکجہتی قائم رہ سکتی ہے جو ایک مسلک معین کی اتباع میں نصیب ہوتی ہے؟کیونکہ مختلف علمائے اہلحدیث کا ذاتی اجتہاد باہم و گر مختلف ہو سکتا ہے۔ کیا ایسا کرنے سے اختلاف اور تفرقہ بڑھ تو نہیں جائے گا؟
11۔ ایک اہلحدیث عالم دین کے ذاتی اجتہاد اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کی مدون اور مرتب فقہ میں سے کونسی چیز عمل کرنے کے لیے افضل ہے؟اگر عامی اجتہادی مسائل میں ان ائمہ میں سے کسی ایک امام فقہ کی اتباع کرتا ہے تو کیا ایسا آدمی عامل بالحدیث نہیں ہے؟ خصوصاً جبکہ وہ اپنے امام کے خلاف قرآن و حدیث مسائل کو چھوڑ دینے کے لیے بھی تیار ہو؟
نوٹ: کتاب معیار الحق مصنفہ سید نذیر حسین محدث دہلوی میں مندرجہ تقلید کے چار اقسام نظر میں رکھیں۔
12۔ کیا علمائے اہلحدیث ہر فقہی مسئلے کے لیے قرآن مجید یا حدیث شریف سے نص صریح پیش کرتے ہیں، جیسا کہ ابن حزم ظاہری کا معمول بتایا جاتا ہے؟نیز اہل حدیث اور ظاہریوں کے مسلک میں کیا فرق ہے؟
13۔ اگر مذکورہ بالا سوال کا جواب اثبات میں ہے تو براہ کرم ہر فقہی مسئلے کے لیے گنجائش باقی نہ رہے۔
14۔ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر آپ کو فقہی مسائل کے بارے میں ایسا اجتہادی فتویٰ مخالفین کو پیش کرنا ہو گا، ائمہ اربعہ میں سے کسی سے منقول نہ ہو۔ نیز قرآن و حدیث