کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 50
نہیں۔ انھوں نےتفہیمات سے شاہ ولی اللہ کی وصیت نقل کرنے سے پہلے لکھا ہے: ”شاہ صاحب نے ان دو مختلف اورغیر معتدل نظریات اور اُن کے نتائج کے حسن وقبح سے متاثر ہوکر اپنےتلامذہ او رمتوسلین کو یہ وصیت فرمائی۔ “ مؤلف نے شاہ صاحب کی وصیت کو فارسی اصل اور اردوترجمہ کے ساتھ ثبت کیا ہے اور حقیقت میں یہ وصیت اس قابل ہے کہ اس پر اُمت مسلمہ کے ہرفرقہ اور فرقے کے ہرفرد کو غور کرنا چاہیے۔ شاہ صاحب سے انتساب کی بات ہر ایک کرتا ہے، لیکن ان کے پیغام کے مطابق عمل کامسئلہ توجہ طلب ہے۔ وصیت کی اردو عبارت پر آپ بھی غور کیجئے: ”فقیر کی پہلی وصیت یہ ہے کہ اعتقاد اور عمل میں کتاب وسنت کے ساتھ تمسک کرے اوراُن دونوں کو اپنا مشغلہ قراردے۔ ہر دو سے کچھ حصہ روزانہ پڑھے اوراگر پڑھ نہ سکے تو چند اوراق کا ترجمہ سنے۔ عقائد میں سلف اہل سنت کی روش اختیار کرے۔ ائمہ سلف کی طرح موشگافیوں سے بچے او رخام کار معقولیت کی شک آفرینیوں سے بچے۔ فرعی مسائل میں ان محدثین کا اتباع کرے جوحدیث اورفقہ دونوں سے پوری طرح واقف ہوں۔ فقہی مسائل کو ہمیشہ کتاب وسنت پرپیش کرے، جو موافق ہو اسے قبول کرے، ورنہ بالکلیہ نظر انداز کردے۔ اُمت کو اپنے اجتہادات کو کتاب وسنت پر پیش کرنے سے کبھی استغنا حاصل نہیں ہوا۔ ضدی قسم کے فقیہ حضرات، جنھوں نے بعض اہل علم کی تقلید کو دین کا سہارا بنا رکھا ہے اور کتاب وسنت سے اعراض ان کا شیوہ ہے، ان کی بات تک نہ سننا اور اُن کی طرف نگاہ مت اُٹھانا اور ان سے دور رہنے میں ہی میں خدا کا قرب تلاش کرنا۔ “ شاہ صاحب کی یہ عبارت اور اس کا مدعا بالکل واضح ہے۔ مصنف کا اس وصیت پر تبصرہ ملاحظہ فرمائیے: ”شاہ صاحب کے دانشمند اور جرأت آمیز اعلان سے تعجب ہوتا ہے، شاہ