کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 498
ارشاد الطالبین میں فرماتے ہیں: ”اگر کوئی کہے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس عمل پر گواہ ہیں۔ وہ کافر ہوجائےگا۔ اولیاء معدوم کو موجود نہیں کرسکتے، موجودکو معدوم نہیں کرسکتے۔ ان کی طرف ایجاد یا اعدام، رزق دینے والا، اولاد دینے، مصیبت اور بیماری دور کرنے کی نسبت کرنا کفر ہے۔ ارشاد ربانی ہے:”اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! کہہ دو، میں اپنے لیے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں، مگر جو اللہ چاہے۔ “[1] اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں، نہ اس کےسواکسی سے مدد طلب کرے۔ ((إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين)) میں اللہ تعالیٰ نے تعلیم دی ہے کہ اے اللہ! ہم تجھی سے مدد چاہتے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ ((إِيَّاكَ)) میں حصرہے۔ اولیاء اللہ کے لیے کوئی نذر درست نہیں، کیونکہ نذر عبادت ہے۔ اگر کوئی نذر ایسی مانے تو اسے پورا نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ معصیت سے جہاں تک ممکن ہو، بچنا چاہیے۔ اورقبروں کا طواف درست نہیں، کیونکہ طواف نماز کے حکم میں ہے اور یہ بیت اللہ کا حق ہے۔ زندہ اور مردہ ولیوں اور نبیوں سے دعا کرنا درست نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:دعا ہی عبادت ہے۔ پھر ارشاد خداوندی ہے:”مجھ سے دعا کرو، میں قبول کروں گا، جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، وہ ذلیل ہوکرجہنم میں جائیں گے“اور جو لوگ یہ وظیفہ کرتے ہیں:”یاشیخ عبدالقادر جیلانی شئیاً للہ“یا”خواجہ شمس الدین پانی پتی شئیاًللہ!“ یہ کہنا جائز نہیں، شرک اورکفر ہے۔ “ اس کے بعد فرماتے ہیں: ((إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ)) (الاعراف:194)
[1] ۔ الاعراف:188