کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 496
آیت کا مطلب صاف ہے۔ ” مِنْ “ بیانیہ ہے۔ ” أَصْحَابِ الْقُبُورِ “یہ” الْكُفَّارُ “کا بیان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں تو ایمان کی امید ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اور بھی اسباب ہیں، جن سےامید ہوسکتی ہے۔ موت کے بعد اہلِ کفر کے لیے کوئی امید گاہ نہیں۔ جو لوگ مسلمان کہلواکر کفار سے وابستہ رہیں، انھیں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نامید ہوجانا چاہیے۔ اس میں قبر پرستی کے لیے گنجائش نہیں۔ تمام مفسرین نے آیت کا مفہوم اسی انداز سے بیان فرمایا ہے۔ قرآن عزیز تو ان امراض کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا ہے، وہ شرک کی کیوں اجازت دے گا؟ آیت((فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ)) (البقرۃ:22) کی تفسیر میں شاہ عبدالعزیز صاحب رحمہ اللہ نے ((أَنْدَادًا))کی مختلف اقسام ذکر فرمائی ہیں، ان میں چوتھی قسم میں قبر پرست حضرات کا تذکرہ ہے۔ فرماتے ہیں: ”چہارم:پیرپرستاں گوئیند چوں مرد ِ بزرگے کہ بہ سبب کمال ریاضت ومجاہدہ مستجاب الدعوات ومقبول الشفاعت عنداللہ شد بودازیں جہاں می گزرو وروحِ اُوراقوت عظیم ووسعت ِ بس نیم می رسد ہرکہ صلوٰۃ اور ابرزخ سازد یادرمکان نشست وبرخاست اوسجود وتذلل تام نماید روح اوبہ سبب وسعت واطلاق برآں مطلع شود دردنیا وآخرت درحق اوشفاعت نماید“ (تفسیر عزیزی:1/151) ”پیر پرست کہتے ہیں کہ بزرگ آدمی کثرت ریاضت اور مجاہدہ کی وجہ سے اس کی دعائیں اور سفارش اللہ کے ہاں زیادہ مقبول ہوتی ہیں، اس دنیا سے رخصت کے بعد اس کی روح میں بے حد قوت اور وسعت پیدا ہوجاتی ہے، جب اس کی صورت کو برزخ بنایا جائے، یا اس کی نشست گاہ اور قبر پر عجزوانقیاد سے سجدہ کیا جائے، اس کی روح کو وسعت علم کی بنا پر اطلاع ہوجاتی ہے اور دنیا وآخرت میں اس کے حق میں سفارش کرتی ہے۔ “