کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 495
نعش تھی، جسے قحط کے ایام میں باہرنکالا جاتا تھا تو بارش ہوجاتی تھی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے حکم سے ہم نے دن کے وقت تیرہ قبریں نکالیں، رات کے وقت انھیں دفن کرکے سب قبریں برابر کردیں، تاکہ کوئی ان قبروں کو پہچان نہ سکے اور پرستش شروع ہوجائے۔ [1]
جہاں تک اہلِ حق پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تعلق ہے، وہ زندوں پر بھی ہوتی ہے، مردوں پر بھی۔ دانیال پر بھی ہوسکتی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی۔ تمام انبیاء اور صلحا، اس کی رحمت سے مستفیض ہوتے ہیں، بلکہ ہم جیسے گناہگار بھی اسی کی رحمت کے سہارے پر جی رہے ہیں۔ جہاں تک قبرپرستی کے لیے استدلال کا تعلق ہے، دانیال سے نہ اس وقت کسی نے استغاثہ کیا نہ اب درست ہے، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس قبر کو اس قدر مخفی فرمادیا کہ نہ اس وقت کوئی اسے معلوم کرسکا نہ آج ہی کسی کو معلوم ہے۔ اسے گم کردینا دلیل ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم قبر کے ساتھ استعانت واستغاثہ کے تعلق کو ناجائز سمجھتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے ایساہوا۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بھی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے مشرکانہ افعال کے خلاف صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے، ورنہ جب وہ کسی کو ناپسند فرماتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی کھلے طور پر کہہ دیتے تھے۔
ایک آیت سے استدلال کی حقیقت:
اس موضوع پر ایک آیت کو بھی مسخ کرنے کی کوشش فرمائی گئی ہے:
((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ)) (الممتحنۃ:13)
”اے ایمان والو!ان لوگوں سے مت دوستی کرو جن پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوا، وہ اللہ کی رحمت سے اسی طرح بے امید ہیں، جس طرح قبروں والے کافر(موت کے بعد) اللہ کی رحمت سے بے امید ہیں۔ “
[1] ۔ اقتضاء الصراط المستقیم (ص:199)