کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 493
شہدائے اُحد: شہدائے احد کے متعلق ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم احد تشریف لے گئے اور یہ درست بھی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ احد مدینہ منورہ کا ایک حصہ ہے، اس کی راہ جنت البقیع کی طرح ہوگی۔ یہ کوئی سفر نہیں ہے اور یہ زیارت بھی ہرسال نہیں فرمائی، بلکہ صرف 8ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، ان شہیدوں کے لیے دعا فرمائی۔ صحیح بخاری میں ہے: ((عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِي سِنِينَ، كَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَاءِ وَالأَمْوَاتِ))[1] (2/578) ”عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد پر 8ہجری میں نماز پڑھی۔ ایسا سماں تھا جیسے حضرت زندوں اورمردوں کو وداع فرما رہے ہوں۔ “ یہ حدیث صحیح بخاری میں تین جگہ مرقوم ہے، کتا ب الجنائز میں ایک دفعہ اور کتاب المغازی میں دودفعہ۔ الفاظ میں بھی معمولی سااختلاف ہے، اس حدیث سے چند امور ظاہر ہیں: 1۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم یہ زیارت ہرسال نہیں فرماتے تھے، بلکہ یہ واقعہ صرف 8ہجری میں ہوا۔ 2۔ اس کی حیثیت وداعی حادثے کی سی تھی، یعنی اس کے بعدآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زیارت شہدائے احد کے لیے تشریف نہیں لے گئے۔ 3۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں خطبہ دیا، ایسے خطبے حضور غیر معتاد امور پر ہی دیا کرتے تھے۔ یہاں صلوٰۃ کے معنی صرف دعا سمجھے جائیں تو زیادہ مناسب ہے۔ پانچ سال کے طویل عرصے کے بعد قبر پر نماز جنازہ پڑھنا احناف ناپسند فرماتے ہیں، کیونکہ اس عرصے میں میت کا تفسخ یقینی ہے۔ شہید معرکہ پر شوافع نمازجنازہ کو ناپسند فرماتے ہیں۔ صحیح احادیث کا تقاضا بھی یہی ہے۔ قرینِ قیاس بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 8ہجری میں وداعی دعا فرمائی۔
[1] ۔ صحیح البخاری، رقم الحدیث (1279۔ 3401۔ 3857۔ 6062۔ 6218) صحیح مسلم، رقم الحدیث (2296)