کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 490
ٹھہرایا۔ اس لیے قبر کی زیارت کے وقت صاحبِ قبر کے لیے اگر اللہ سے دعا کی تو یہ عبادت ہوگی۔ ایسا کرنے والا ثواب کا مستحق ہوگا اور اگر اس نے خود صاحب ِقبر سے دعا کی، اس سے کچھ طلب کیا تو یہ شرک ہوگا، اس کے تمام اعمال ضائع ہونگے۔
بلکہ صحیح مذہب یہ ہے کہ قبر کو مقامِ تقرب بھی نہ سمجھے۔ وہاں یہ سمجھ کر دعا کرنا کہ یہاں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے یا جلد قبول ہوتی ہے، یہ بھی غلط ہے۔ ایک اثر مشہور ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی قبر کو قبولیت کا مقام سمجھتے تھے، یہ اثر غلط ہے، اس کی کوئی سند امام شافعی رحمہ اللہ تک نہیں پہنچتی۔ [1]
زیارت کا ایک یہی صحیح طریقہ ہے کہ مسنون دعا پڑھے اور مقبور کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرے، جس طرح جنازہ میں دعا کی جاتی ہے۔ اصحاب قبور نہ کچھ دے سکتے ہیں، نہ لے سکتے ہیں، ان سے کچھ مانگنا عبث بھی ہے اور گناہ بھی۔
غلط بیانیاں:
٭ قبرپرستوں سے عام طور پر سناگیا ہے:
((إذا تحيَّرتُم في الأُمور فاستعينوا بأهل القبور))
”جب تمھیں کسی کام میں حیرانی ہو تو اہلِ قبور سے مدد مانگو۔ “
اسے حدیث کہہ کر ذکر کیا جاتاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ حدیث نہیں۔ محدثین نے صراحتاً فرمایا ہے یہ جھوٹی بات ہے"
((هو كلام موضوع مكذوب باتفاق العلماء)) (اقتضاء الصراط :585)
”اہل علم کا اتفاق ہے کہ یہ جھوٹی بات ہے“
شاہ ولی اللہ صاحب اس روایت کے بعد فرماتے ہیں:
”ایں حدیث قولِ مجاوران است برائے اخذ نذر ونیاز برمصطفیٰ صلی اللہ علیہ
[1] ۔ تفصیل کے لیے دیکھیں:توحید ِ خالص از علامہ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ( ص:658)