کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 49
کو بُرا سمجھا۔ مصنف اس کی توجیہ میں لکھتے ہیں: ”جس طبیعت کا خمیر تجدید اور اجتہاد سے اٹھایا گیا ہو، جہاں حکم اورمصالح ذوق میں سمو دیے گئے ہوں، جس شخص نے اسرار شریعت اور دین کو حکمتوں میں رازی اورغزالی سے سبقت حاصل فرمائی ہو، ابن حزم اور عزبن عبدالسلام جیسے فحول ائمہ پر تنقیدی تبصرے کیے ہوں، وہ توضیح اورکشف الاسرار پر کیسے مطمئن ہوسکتاتھا؟اصول فقہ اور فقہ کے متعارض اورمتصادم اصول اور جزئیات اسے کیسے مطمئن کرسکتے تھے؟“(ص:90) مصنف کی وسعتِ نظر مصنف نے اسلامی فرقوں کے اصول ومقاصد کا جائزہ لیتے ہوئے جانبداری کو ترک کردیا ہے، اس سلسلے میں انھوں نےظاہری فرقہ یا اہل الرائے پر گفتگو کےموقع پر انصاف سے کام لیا ہے ا ورحق پسندی کی روح سےتجزیہ کیا ہے۔ ظاہریت اور فقہی جمود پر ان کا تاثر کتاب کے متعدد مقامات پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ”حافظ ابن حزم اور امام داود ظاہری کا قیاس سے بالکل صرف نظر کا نظریہ ائمہ حدیث میں مقبول نہ ہوسکا، اورفقہائے عراق میں تو اس کی گنجائش ہی کہاں تھی؟اس لیے ائمہ حدیث اورفقہائے عراق میں قیاس سے استفادہ یا نظائر میں احکام کی وحدت کا جہاں تک تعلق ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں، بوقت ضرورت قیاس کو سب درست سمجھتے ہیں، بلکہ ضروری!“(ص:87) اس اقتباس سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ حقیقت کے اعتراف میں مصنف کوکوئی تامل نہیں، نہ کسی فرقے یا گروہ کے سلسلے میں دل میں کوئی تنگی یا تعصب ہے، ان کی گفتگو اصول کی بنا پر ہے اور اسی کی روشنی میں فیصلہ ہے۔ اگرکوئی پاسداری ہے توصرف کتاب وسنت کے اصول اور منہج سلف کی ہے۔ دوسری کسی چیز کی ان کی نظر میں اہمیت