کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 489
”اولیاء کی قبروں کو اونچاکرنا، ان پر گنبد بنانا، عرس کرنا، چراغ جلانا بدعت ہے۔
ان میں بعض بدعات مکروہ(تحریمی) ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر چراغ جلانے والے اور سجدہ کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا: نہ میری قبر پر میلہ لگے نہ اس پر مسجد بنائی جائے، نہ ایسی مساجد میں نماز ادا کی جائے، نہ کسی مقررہ تاریخ میں وہاں اجتماع کیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ اونچی قبروں کو برابر کردیں اور جہاں تصویر دیکھیں، اسے مٹادیں۔ “
زیارت کےآداب:
عام قبروں کی زیارت مسنون ہے۔ قبر پر جائے تو دعائے مسنون پڑھے۔ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ اختلاف کے باوجود ان میں ایک چیز قدر مشترک ہے، ان میں صاحب ِ قبر کے لیے دعا کی گئی ہے، صاحب ِ قبر سے کچھ نہیں مانگا گیا۔ اس ادب کا ملحوظ رکھنا از بس ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے اپنے یا کسی دوسرے کے لیے دعا کرنا عبادت ہے۔ جب یہ دعا کسی دوسرے سے کی جائے تو یہ اس کی عبادت ہوگی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
((الدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ)) [1] ”دعا عبادت کا مغز ہے۔ “
ایک حدیث میں آیا ہے:
((إِنَّ الدُّعَاءَ هُوَ الْعِبَادَةُ)) [2] ”دعا ہی عبادت ہے۔ “
اللہ کےسوا غیر کی عبادت کرنا بھی حقیقتاً شرک ہے۔
عبادت اللہ کا خاص حق ہے، اس میں اس کے ساتھ نہ کوئی ولی شریک ہوسکتا ہےنہ کوئی نبی۔ جس نے کسی نبی سے یا ولی سے دعاکی، اس نے اللہ تعالیٰ کا شریک
[1] ۔ سنن الترمذی، رقم الحدیث(3371) اس کی سند میں ابن لہیعہ راوی ضعیف ہے۔
[2] ۔ سنن ابی داؤد رقم الحدیث (1479) سنن الترمذی، رقم الحدیث (2969) وقال الترمذی ”ھذہ حدیث حسن صحیح“