کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 488
لکڑی لگادی۔ لکڑی کا جنگلہ نیچے سے مربع تھا، اوپر سے ثمن(آٹھ کونہ) کردیا گیا۔ اسے ”قبہ زرقاء“ کہتے تھے۔ یہ کمال الدین بن احمد بن برہان عبدالقوی کے مشورے سے کیا گیا، مگر اس وقت کے اہل علم نے اسے ناپسند کیا، چنانچہ جب کمال الدین کو معزول کیاگیا تو عوام نے اسے قبہ سازی کی پاداش سمجھا۔
جب یہ خستہ ہوگیا تو ملک ناصر حسین بن محمد قلاددن نے اس کی مرمت کی، پھر 765ھ میں ملک اشرف بن حسین شعبان نے کی اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہا، یہاں تک کہ موجودہ گبند خضراء کی تعمیر عمل میں آئی۔ ان ترمیمات کا مفصل تذکرہ علامہ سہودی نے قریب ایک سوصفحات میں کیا ہے۔ [1]
یہ تغیرات ملکی اور تعمیری مصالح کی بناءپر ہوتے رہے، ان کی بنیاد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد یا وصیت کی بنا پر نہیں تھی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار میں کوئی اثر اس کے ثبوت میں پایا جاتاہے۔ گنبد خضراء کی عمارت کو دوسری قبروں کے گنبدوں اور قبوں کے لیے دلیل بنا کر پیش کرنا عقل ونقل، کسی اعتبار سے درست نہیں۔ قبہ مبارک کے یہ تغیرات کوئی شرعی سند نہیں ہیں۔
محققین علمائے احناف نے قبروں کے ساتھ اس معاملے کو صراحتاً ناجائز فرمایا ہے، چنانچہ قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی رحمہ اللہ نے فرمایا:
” قبور اولیاء بلند کردن وگنبد براں ساختن وعرس وامثال آں و چراغاں کردن ہمہ بدعت است، بعض ازاں حرام است وبعض مکروہ، پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم بشمع افروزاں نزد قبر و سجدہ کنندگاں را لعنت گفت وفرمود قبر مراعید ومسجد نہ کنید، ودرون مسجد سجدہ بکنید وروز عید برائے مجمع درسال مقرر کردہ شدہ ورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، علی رضی اللہ عنہ رافرستاد کہ قبور مشرفہ را برابر کنید، ہرجاکہ تصویر بیند محو کند“ (ارشادالطالبین، ص:20)
[1] ۔ وفاء الوفاء(2/159)