کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 487
ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی یہیں دفن ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تدفین کے بعدحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حجرے میں ایک دیوار بنا کر قبور کا حصہ الگ کردیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حجرۂ مبارکہ کی مرمت کرائی، اس وقت قبریں اپنی حالت پر کچی تھیں۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں غربی دیوار گر گئی۔ خلیفہ نے ابن مزاحم کو حکم دیا، حجرہ صاف کرایا گیا اور دیوار بنادی گئی۔ اس وقت حجرہ شریف مربع تھا خلیفہ عبدالمالک نے حکم دیا کہ حجرہ مسجد میں شامل کیا جائے۔ مدینہ منورہ کے علماء اسے ناپسند کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ قبور مسجد میں نہ آئیں، بلکہ الگ رہیں۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے شمال کی طرف ایک زاویہ بڑھا کر حجرہ کی مربع عمارت کو مخمس کردیا، قبلہ جنوب کی طرف ہے۔ خیال تھا کہ زاویہ شمال کی طرف ہونے سے قبر شریف کو سجدہ نہیں ہوسکے گا۔ ابن قیم رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں:
فَأَجَابَ رَبُّ العَالَمِينَ دُعَاءَهُ وَأَحَاطَهُ بِثَلاَثَةِ الجُدْرَانِ.
حَتَّى اغْتَدَتْ أَرْجَاؤُهُ بِدُعَائِهِ فِي عِزَّةٍ وَحِمَايَةٍ وَصِيَانِ [1]
”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا اثر اس طرح ظہور پذیر ہوا کہ حجرۂ مقدسہ میں تین دیواریں بنادی گئیں اور اس کے اطراف اہلِ شرک کے سجدوں سے محفوظ ہوگئے۔ شمال کی طرف صرف کو نہ ہے، جسے سجدہ کرنا ممکن نہیں۔ “
اس کے بعد حجرہ کی ہمیشہ ترمیم ہوتی رہی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کو قائم رکھنے کے جذبے کی وجہ سے اکثر مرمت پر کفایت کی گئی۔ علامہ علی بن عبداللہ سہودی نے ”وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفیٰ“ میں اسے تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ [2]
حجرہ مسجد میں شامل ہونے کے بعد حجرہ پر اینٹوں کی جالی لگادی گئی ہے۔ حجرہ کی چھت مسجد کی چھت سے مل گئی۔ اس کے بعد منصور بن قلاوون صالحی(678ھ) نے جالی کی جگہ
[1] ۔ القصیدۃ النونیۃ(ص:252)
[2] ۔ دیکھیں:وفاء الوفاء للسہودی(2/158)