کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 486
خالص دنیا دار بن چکی ہے، لیکن خانقاہی حلقوں میں اسے دین اور شریعت سمجھا جاتا ہے۔ عوام جن کی نظر سنت کے ذخائر اور تاریخ پر نہیں ہے، وہ کربلا، نجف اور بغداد وغیرہ۔ شہروں میں مزارات پر قبے دیکھ کر یہی محسوس کرتے ہیں کہ یہ قبے یقیناً شرعی احکام کے ماتحت بنے ہوں گے، حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہے۔ انہی مزارات کو دیکھ کر امام حاکم رحمہ اللہ صاحب مستدرک نے فرمایا:
((هذه الاسانيد صحيحة وليس العمل عليها، فان ائمة المسلمين من الشرق والغرب مكتوب علي قبورهم وهو عمل اخذ به الخلف عن السلف)) (مستدرک حاکم:1/370)
”قبر پر لکھنے کے خلاف تمام اسانید صحیح ہیں، مگر ان پر عمل نہیں کیا گیا، کیونکہ مشرق سے مغرب تک ائمہ کی قبروں پر لکھاگیا ہے اوریہ خلف نے سلف سے لیا ہے“
حقیقت یہ ہے کہ یہ عمل نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، نہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے بلکہ بعد لوگوں نے ایسا کیا، جن کا قول وفعل حجت نہیں۔ حدیث کا ناسخ ہونا تو بڑی بات ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ار شاد تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ہی سے منسوخ ہوسکتا ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ تلخیص مستدرک میں فرماتے ہیں:
((قلت: ما قلتَ طائلًا، ولا نعلم صحابيًّا فعل ذلك، وإنما هو شيء أحدثه بعض التابعين فمن بعدهم، ولم يبلغهم النهي))
(1/370)
”امام حاکم رحمہ اللہ نے کوئی کام کی بات نہیں فرمائی۔ یہ فعل کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے نہیں کیا۔ یہ بعض تابعین اور ان کے بعد والوں کی ایجاد ہے، جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نہی کا علم نہیں ہوا۔ “
روضۂ نبویہ۔ علی صاحبھا ألف صلاۃ وتحیۃ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد جسمِ اطہر کو حجرۂ مقدسہ میں دفن کیا گیا۔ حضرت