کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 485
چراغ جلانا: قبر پر عمارت جس طرح شرک کے دواعی ہے، اسی طرح چراغ جلانا بھی ممنوع اور شرک کے دواعی سے ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَعَنَ اللّٰه زَائِرَاتِ الْقُبُورِ وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ)) [1] اس سے ظاہر ہے کہ عرب قبروں پر چراغ جلاتے تھے، اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور اسے ناپسند فرمایا، اور جس فعل پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم لعنت فرمائیں، اس کی دینی مضرت اور اخروی خسران کی بھلا کوئی انتہا ہے؟ قبر پرپھول چڑھانا: ہمارے ملک کے تعلیم یافتہ حضرات کی ذہنی کیفیت عجیب ہے۔ جوچیز یورپ سے آئے اسے تو آنکھیں بند کرکے مان لیتے ہیں، اور اسلام کے مسائل سامنے آجائیں تو از سر تاپابحث بن جاتے ہیں۔ یورپ میں رواج کہ قبروں پر پھول چڑھاتے ہیں۔ ان حضرات میں دینی شعور تو کم ہے، مگر یہ حضرات اہل مغرب کی تقلید بغیرسوچے سمجھے کررہے ہیں۔ جہاں جاؤ، قبروں پر پھول چڑھ رہے ہیں، حالانکہ معلوم ہے کہ اس سے میت کو کوئی فائدہ نہیں۔ جیسے چراغ کی روشنی سے میت کو روشنی نہیں مل سکتی، پھول کی خوشبو سے میت کو کوئی فائدہ نہیں، لیکن چونکہ یہ رسم یورپ سے آئی ہے، اس لیے بابو لوگ اس پر ضرور عمل کریں گے۔ عقل ودانش کا تقاضا ہے کہ ان رسوم کو جذبات سے بالاترہوکر دانشمندی سے ان پر غور کیا جائے۔ اب بڑھتے بڑھتے یہ رسم جہاں تک عام ہوگئی ہے کہ بادشاہوں اوروزراء کے دوروں میں مرنے والوں کی قبروں پر پھول چڑھانا خیر سگالی کا ایک جزو قراردیا گیا۔ اب یہ رسم ان حلقوں میں
[1] ۔ سنن ابی داؤد رقم الحدیث(3236) اس کی سند میں”ابوصالح“ راوی ضعیف ہے، جس کی بنا پر یہ حدیث ضعیف ہے۔ البتہ کثرت سے زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت صحیح حدیث میں موجود ہے۔