کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 484
بہ مے سجادہ رنگیں کُن گرت پیر مغاں گوید کہ سالک بے خبر نہ بود ز راہ ورسمِ منزل ہا[1] خانقاہی نظام میں یہ خوبی تھی کہ اس میں اطاعت کا بے پناہ جذبہ پیدا ہوتاتھا۔ حسن بن صباح کی ساری باطنی تحریک کا مدار ہی جذبۂ اطاعت پر تھا۔ اسی جذبۂ اطاعت کا یہ غلو تھا کہ شیخ اور پیر کے کسی خلاف ِشریعت قول وفعل پر بھی لب کشائی کی اجازت نہ تھی۔ بس! سنو، دیکھو اور اطاعت کرو۔ یہ عیب آج بھی خانقاہی نظام کا لازمی جزو ہے۔ قبرپرستی اور انسان پرستی کے خلاف آپ کتنے ہی دلائل دیں، کتاب وسنت سے شواہد وبراہین لائیں، مگر یہ لوگ کتاب وسنت کے مقابلے میں اپنے مشائخ اور اصحابِ سلسلہ کے اقوال واعمال کو ترجیح دیتے ہیں اور طرح طرح کے نکتے پیدا کرتے ہیں۔ وقت کا تعین تو مشکل ہے، کیونکہ مرض بتدریج آیا ہے، لیکن چھٹی ساتویں صدی ہجری میں یہ بیماری زوروں پر تھی۔ نام نہاد صوفیوں کے کئی گروہ اپنی دکانیں سجائے ہوئے تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مقابلہ رفاعی فرقے کے ایک فقیر سے ہوا، جس نے حکومت اور اس کے عمال کو متاثر کررکھا تھا۔ اس نے شیخ الاسلام سے کہا کہ آپ بھی آگ میں کود جائیں، میں بھی کودتا ہوں، جس کو آگ نہ جلائے وہ سچا ہوگا۔ شیخ نے فرمایا کہ آگ میں کودنے سے پہلے میں اور تم دونوں نمک اور سرکہ سے غسل کریں گے، اس شرط پر وہ فقیر صاحب رہ گئے اور شیخ الاسلام کا میاب رہے۔ شیخ رحمہ اللہ نے یہ پورا مکالمہ اپنے رسالے ”الصوفیۃ والفقراء“ میں لکھا ہے۔ [2]
[1] ۔ اگر پیر جائے نماز کو شراب سے رنگنے کا کہے تو اس کی تعمیل کرو، کیونکہ سالک منزل کی راہ سے ناواقف نہیں ہوتا۔ [2] ۔ مجموع الفتاویٰ(11/152)