کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 483
”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی:
((لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ)) (الحدیث)
”تم پہلے لوگوں کے قدم بہ قدم چلو گے، جس طرح جوتے کے تلے باہم برابر ہوتے ہیں۔ “
کے مطابق قبر پرستی کا رجحان تیسری صدی میں شروع ہوا۔ امام شافعی رحمہ اللہ 150ھ میں پیدا ہوئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے انصار اورمہاجرین کی قبروں کو دیکھا، ان پر کوئی عمارت نہیں تھی، وہ بالکل سادہ تھیں۔ امام رحمہ اللہ کا انتقال 204ھ میں ہوا۔ اس وقت جنت المعلیٰ اور جنت البقیع کے مشاہد سادہ تھے، اہل علمِ کی کثرت تھی اور اس جہالت کا رواج ممکن ہی نہ تھا۔
اسلام کی فتوحات جب دور تک پہنچیں۔ فارس اورروم کے علاقے فتح ہوئے، اسلامی تعلیمات نے مفتوحہ علاقوں کو متاثر کیا۔ مفتوحہ اقوام کی عادات اور رسوم نے بھی مسلمانوں کو متاثرکیا۔ اسلام میں تصوف، دنیا سے بے رغبتی، اللہ تعالیٰ پر توکل اس کے قانونِ اسباب کی پابندی کا نام تھا۔ مسلمان پوری کوشش اور محنت کے بعد اللہ تعالیٰ پر توکل فرماتے، وہاں نہ خانقاہی نظام تھا اور نہ عقیدت مندی کا غلو۔
یہود، نصاریٰ، مصری اقوام اور ہندوستان کے اثرات جب اسلامی تعلیمات سے آمیز ہوئے تو خانقاہی نظام کی صورت پیدا ہوگئی۔ کم کھانا، دم کشی، چلے کرنا، مرید اور شیخ کے آداب کا ایک معیار، اس نئے تصوف کے اجزائے ترکیبی قرارپائے۔ شیخ کا تصور، وظائف کے مخصوص شرائط، بھوکے رہنا، نفس کشی، بعض قویٰ کو معطل کردینا اور بعض کو ضائع کردینا، یہ سب اسی خانقاہی تصوف کے کرشمے تھے، جو یہودی فقراء اور ہندوستان کے سادھوؤں سے اخذ کیے گئے۔ معمولی تبدیلیوں سے انھیں اسلام کا ہمرنگ بنادیاگیا۔ ان مشقوں میں کچھ فائدے بھی تھے، کچھ نفسیاتی اثرات بھی جس نے ایک فن کی شکل اختیار کی۔ قبرپرستی کی موجودہ صورت اسی خانقاہی نظام، اس پس منظر کی پیداوار معلوم ہوتا ہے۔ شیخ اور پیر کے ساتھ بے پناہ عقیدت نے شیخ کو خدا اور رسول کا نائب بنادیا، اس پر تنقید ناجائز قراردی گئی ؎