کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 482
علامہ کاسانی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
((لان ذلك من باب الزينة، ولا حاجة بالميت اليها، ولانه تضييع المال بلافائدة فكان مكروها))
(البدائع والصنائع:1/320)
”قبر پر عمارت اور چونا وغیرہ لگانا زینت ہے اور میت کو اس کی ضرورت نہیں، اس سے بے فائدہ مال برباد ہوتا ہے، اس لیے یہ مکروہ ہے۔ “
شامی کی عبارت میں یہ صراحتاً موجود ہے۔ اس لیے قبرستان میں کوئی ایسی چیز بنانا جس سے دنیا کی زیب وزینت ظاہر ہو، باتفاق ائمہ ناجائز ہے۔ قبرستان ویران ہونا چاہیے۔ جن قبور پر عمارات بنائی گئی ہیں، فقہاء کے نزدیک ان سے زیارت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ مسنون زیارت کے لیے ضروری ہے کہ اس سے زہد نمایاں ہو اور آخرت یاد آئے۔ علماء اور اہل اللہ کی قبروں پر جو قبے اور عمارتیں بنائی گئیں ہیں، شریعت کی رُو سے یہ قطعاً پسندیدہ کام نہیں ہے، بلکہ باتفاق ائمہ نادرست ہے۔
مسنون دعا:
جب قبر کی زیارت کرے تو قبر پرسلام کہے اور جنازے کی طرح میت کے لیے دعا کرے:
((السلامُ على أهلِ الدِّيارِ من المؤمنينَ والمسلمينَ، ويَرحَمُ اللهُ المستقدِمينَ منَّا والمستأخرينَ، وإنا إن شاءَ اللهُ بكم للاحقُونَ))[1]
اس کے سوا اور ادعیہ کے جملے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں، جو اہلِ سنت سے مخفی نہیں۔
قبرپرستی کب شروع ہوئی؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے قبرپرستی کا زیادہ رواج یہود اورنصاریٰ میں تھا۔ مشرکین میں بھی شرک کی یہ قسم موجود تھی لیکن کم، اس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔
[1] ۔ صحیح مسلم، رقم الحدیث(975)