کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 479
مومن اس غائب خدا پر ایمان لانے کے بعد ان تمام بناوٹی وسیلوں سے بے نیاز ہو گئے، جن میں ظاہر میں بت پرست اور قبر پرست مبتلا ہو چکے تھے۔ پختہ قبر: آج کی طرح قدیم قبر پرستی میں بھی عقیدت مندی کے ساتھ دکانداری کو بھی دخل تھا۔ نیک اور صالح حضرات کی جگہ استخواں فروشوں نے لے لی اور چند ہفتوں یا مہینوں میں ایک خانقاہ نے اچھی خاصی دکان کی صورت اختیار کر لی اور بیوپاریوں نے از بس فائدہ بخش بزنس شروع کر لیا۔ شارع حکیم نے پختہ قبروں کو ممنوع قراردے دیا، جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزر چکا، بلکہ اگر قبر پر تعمیر ہو چکی ہو تو اسے گرانے کا حکم فرمایا۔ ٭ صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم فرمایا : ((أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ)) [1] ”تمام بت مٹا دو اور تمام اونچی قبریں برابر کردو۔ “ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی حکومت میں اس عہد کو قائم رکھا اور ابو البیاج اسدی کو اس پر مقرر فرمایا۔ قبور کے متعلق اس بے اعتدالی کا یہ اثر ہے کہ بعض مقامات پر بد کردار عورتوں تک کی قبریں معبد بنی ہوئی ہیں، ان پر چراغ جلائے جاتے ہیں۔ مجاور وہیں سے روٹی کمالیتے ہیں۔ أعاذنا الله من ذلك ٭ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((وأحب أن لا يبنى ولا يجصص فإن ذلك يشبه الزينة والخيلاء وليس الموت موضع واحد منهما ولم أر قبور المهاجرين
[1] ۔ صحيح مسلم، رقم الحديث : (969)