کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 478
((كَانَ رَجُلًا يَلُتُّ السَّوِيق لِلْحَاجِّ ; فَلَمَّا مَاتَ عَكَفُوا عَلَى قَبْره فَعَبَدُوهُ)) [1](ابن جرير: پ، 27، ص:35)
”یہ بزرگ حاجیوں کو ستو بھگو کر پلایا کرتے تھے، جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی قبر پر لوگوں نے اعتکاف کیا اور اس کی پرستش کی۔ “
حافظ ابن کثیر نے یہی قول ربیع بن انس سے نقل فرمایا ہے۔ (ابن کثیر:4/253)
علامہ بدر الاسلام عینی نے شرح صحیح بخاری(9/178)میں تفسیر مظہری (9/116) اور صاحب روح المعانی نے بروایت ابن المنذر، ابن جریج سے نقل فرمایا ہے۔
((أنَّهُ كانَ رَجُلُ مِن ثَقِيفٍ يَلِتُّ السَّوِيقَ بِالزَّيْتِ فَلَمّا تُوُفِّيَ جَعَلُوا قَبَرَهُ وثَنًا)) (روح المعاني، ص:55الاسلام كلبي)
”اور جب یہ پیر ستو شاہ فوت ہو گئے تو عمرو بن یحییٰ نے کہا کہ یہ ولی پتھر میں سما گئے ہیں، مرے نہیں۔ لوگوں نے پتھر کی عبادت شروع کردی اور اس پر ایک مکان بنا دیا۔ “
ان آثارسے معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں بھی بت پرست تھوڑا بہت قبر پرستی کا شوق فرما لیا کرتے تھے۔ اسلام نے ایمان بالغیب کی برکت سے ان ساری پرستوں کا قلع قمع فرما دیا اور خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کو اس طرح ذہن نشین فرمایا کہ اہل ایمان کو نہ کسی بت کی ضرورت محسوس ہوئی، نہ قبر کی۔ وہ اپنے اعمال یا اپنی بے بضاعتی کا واسطہ لے کر براہ راست بارگاہ الٰہی میں پیش ہوئے اور کامیاب ہوئے:
٭ ((وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ)) (البقرۃ186)
”جب میرے بندے میری بابت دریافت کریں تو کہہ دو: میں قریب ہوں، جب کوئی مجھے بلائے میں سنتا ہوں۔ “
٭ ((ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ)) (المؤمن:40) ” مجھ سے مانگوں، میں تمھیں دوں گا۔ “
[1] ۔ تفسیر ابن جریر(11/519)