کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 477
اصل مرض:
بُت پرستی اور قبر پرستی میں اصل مرض یہ ہے کہ مشرک غائب خدا پر عقیدہ نہیں رکھتا۔ اسے یقین نہیں آتا کہ غیر مرئی اور نہ دیکھنے والا معبود اس کی ضرورتیں پوری کر سکے گا۔ وہ بڑے خلوص اور دل سوزی سے محسوس کرتا ہے کہ کائنات کا اتنا بڑا نظام نظروں سے غائب اور اکیلا اخدا کیسے چلائے گاَ؟
٭ ((أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ)) (ص:5)
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تمام الٰہ کو ایک بنا دیا، یہ بڑے تعجب کی بات ہے۔
٭ ((مَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَٰذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ)) (ص:7)
ہم نے تو یہ توحید کسی پہلے مذہب میں نہیں سنی، یہ تو قطاً جھوٹ ہے۔
اسی لیے زندوں کا توسل، مردوں کا توسل، قبروں کی سیڑھیاں اور بتوں کےواسطے گھڑے گئے تاکہ نظر کے سامنے کوئی تو سہارا ہو، کچھ نظر آئے، مستقل نہ سہی غیر مستقل ہی سہی۔ اس قسم کے عطائی الٰہ کچھ زیادہ ہو جائیں تو بلاسے!!خدا کی حکومت سیکڑٹریٹ سے کیوں بے نیاز ہو؟
ساری یہ مصیبت علم بالغیب سے پیدا ہوئی۔ انبیاء غائب خدا کی دعوت دیتے ہیں، ارباب روسل کی تسکین ظاہری شفا اور عطائی بزرگوں کے سوا ہوتی نظر نہیں آتی، اس لیے یہ تشنگی کبھی قبروں سے پوری کی جاتی ہے، کبھی بتوں سے۔
بت پرستوں نے ان کھڑےکھلے مرئی بتوں سے ایک تسکین حاصل کی، اس لیے ان کو قبروں کی کچھ زیادہ ضرورت محسوس نہ ہوئی، مگر شرک کی ذہنیت میں ایک مساوات پائی جاتی ہے، اس لیے قبر پرستی کے تھوڑے بہت آثار ان میں بھی پائے جاتے ہیں۔
سورت نجم کی تفسیر میں ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ مجاہد اور ابو صالح ”لات“کی ”تا“کو مشدد پڑھتے تھے اور فرماتے: