کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 475
قبروں کے پاس مسجد: عام طور پر مشہور مزاروں اور استہانوں کے پاس لوگ مسجد بناتے ہیں، ان سے یہ ذہن پیدا ہوتا ہے کہ اس مسجد میں نماز افضل ہے، گویا قبر کی وجہ سے مسجد کو فضیلت حاصل ہوئی۔ خدا کے گھر کو فضیلت کسی دوسرے ذریعے سے حاصل ہو، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خالق کی طرف نسبت سے وہ فضیلت نہ حاصل ہو سکی جو مخلوق کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ دراصل مسجد اپنے مقام کے لحاظ سے اتنی ہی بے نیاز ہے، جس طرح خدا تعالیٰ مخلوق سے بے نیاز ہے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے پاس مسجد کی تعمیر کو بھی ناپسند فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی تصریح فرمائی: ((إِذَا مَاتَ فِيهِمْ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا)) [1] حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں: (( نَهَى أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ)) [2] قبر پر مسجد بنانا، قبر پر بِنا کرنا، یہ فعل ممنوع ہیں۔ ایسی مساجد میں نماز مکروہ ہے بلکہ اگر خیال ہو کہ اس مسجد میں قبولیت زیادہ ہوتی ہے یا اس میں نماز دوسری مساجد سےافضل ہے تو اس میں نماز نا درست ہو گی۔ قبروں پر عُرس اور میلے: قبر سے شارع کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ویرانی ہو۔ اس کے دیکھنے سے موت کا تصور آنکھوں میں پھر جائے۔ دنیا کی بے ثباقی اورناپائیداری کا یقین ہو۔ دنیا کی زیب و زینت سے بے رغبتی پیدا ہو۔ یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہاں شہری انداز کی عمارتیں نہ ہوں۔ خوبصورتی اور شان و شوکت نہ ہو۔ سنگ مر مر اور سنگ رخام کی گلکاریاں
[1] ۔ صحيح البخاري، رقم الحديث (424)صحيح مسلم، رقم الحديث(528) [2] ۔ صحيح مسلم(970)