کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 474
سامنے رکھنا شرعاً حرام ہے۔
٭ جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:
((أَلَا إنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ فَإِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ)) [1] (مسلم)
”تم سے پہلے لوگ انبیاء اور صلحاء کی قبروں کو سجدے کرتے تھے، تم قبروں کو ہر گز سجدہ گاہ نہ بنانا، میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں۔ “
اس حدیث میں انبیاء کے ساتھ صلحاء کا ذکر بھی آیا ہے اور سختی سے منع فرمایا کہ قبر کو سجدہ گاہ نہ بنایا جائے۔ ایسی قبور جن کی اس طرح پرستش کی جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ”وثن “ کے حکم میں ہیں۔
٭ ((عن أبي مرثد لغنوى قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تجلسوا على القبور ولا تصلوا اليها)) [2](مسلم)
”قبروں پر مت بیٹھوں اور نہ ان کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھو۔ “
اگر قبر کا نشان مٹ جائے، زمین صاف ہو جائے تو نماز درست ہوگی، چنانچہ مسجد خیف، حرم مکہ اور مسجد نبوی [3] صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مروی ہے کہ ان میں سے بعض میں مشرکین کی قبریں تھیں اور بعض میں انبیاء علیہم السلام کی، لیکن اب وہ سب ناپید ہیں، اس لیے شرک کا شائبہ نہیں، ان مساجد میں نماز جائز ہے۔
شریعت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادت گاہ قبروں سے بالکل الگ رہے، نہ مسجد میں قبر ہو نہ قبروں پر مسجد۔ قبراور مسجد دونوں کے احترام کی نوعیت الگ الگ ہے، ان دونوں کو جمع نہیں کرنا چاہیے۔
[1] ۔ صحيح مسلم، رقم الحديث(532)
[2] ۔ صحيح مسلم، رقم الحديث(972)
[3] ۔ دیکھیں:صحيح البخاري، رقم الحديث(418) صحيح مسلم، رقم الحديث(524)