کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 473
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تذکرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری علالت میں ہوا۔ ان احادیث سے ظاہر ہے کہ قبر کو پختہ نہیں بنانا چاہیے، اس کے قریب کوئی عبادت گاہ نہیں بنانی چاہیے، قبر پر کوئی عمارت قبر کے احترام کے لیے نہیں بنانی چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں یہ فعل شرارت آمیز ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ایسے لوگ ((شِرَارُ الخَلْقِ)) (تمام مخلوق سے بدتر) ہیں۔ ((عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ اللَّهُمَّ لاَ تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا يُعْبَدُ اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ)) [1] (رواه مالك مرسلا، ورواه البزار عن زيد عن عطاء عن ابي سعيد خدري مرفوعاً) ” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میری قبر کو وثن نہ بنانا۔ ان لوگوں پر خدا تعالیٰ از بس ناراض ہے، جن لوگوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا۔ “(مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مرسل روایت فرمایا اور بزار نے ابو سعید خدری سے مرفوعاً ذکر کیا ہے) تواتر: ٭ اس مضمون کی احادیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ تواتر مروی ہیں۔ بعض احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے: ((فقد تواترت النصوص عن النبي صلي الله عليه وسلم بالنهي عن ذلك، والتشديد فيه)) ( اقتضاء الصراط المستقيم، ص:569، مطبوعہ انصاری دہلی) یہ حدیث صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابو داود، ابو حاتم، ترمذی، نسائی، مثقیٰ وغیرہ کتب حدیث میں حضرت ابو ہریرہ، عبداللہ بن مسعود، حضرت عائشہ، عبداللہ بن عباس، جندب بن عبداللہ الحلبی اور بعض دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ [2] حدیث کا مطلب صاف ہے کہ قبر کی طرف رُخ کر کے سجدہ کرنا، قبر کو قبیلہ کی طرح
[1] ۔ موطا الامام مالك (1/172)نیز دیکھیں :الاستذكار(6/339) [2] ۔ دیکھیں:صحيح البخاري، رقم الحديث (425)صحيح مسلم رقم الحديث(531)