کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 471
ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہیں، اس کے باوجود کسی کی صحیح قبر کا علم نہیں۔ کبھی ان پر میلہ نہیں لگا۔ کسی نبی سے منقول نہیں کہ دوسرے نبی کی قبر پر زیارت کے لیے گیا ہو یا اپنے اُمتیوں کو حکم دیا ہو کہ اس کی قبر سے یہ معاملہ کیا جائے یا کسی دوسرے نبی کی قبر پر اس قسم کی نذر و نیاز کی جائے۔ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم اس باب میں واضح ہے کہ کسی قبر کو وہ کوئی غیر معمولی اہمیت نہیں دیتے تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ شرائع میں بھی انبیاء علیہم السلام سے یہ رسم منقول نہیں۔
قبل اسلام کی روسوم:
صحیح دین میں تو قبور کوکوئی غیر معمولی مقام نہیں دیا گیا، مگر عوام اور مخالفین انبیاء نے اس معاملے میں جو غلطیاں کیں، اس کی تفصیل احادیث سے معلوم ہوتی ہے اور ان چور دروازوں کا پتا چلتا ہے جو شیطان اور اس کے رفقاء نے ایجاد کیے۔ مشرکین کی یہ عادت رہی کہ زندگی میں انبیاء علیہم السلام اور اہل حق کی مخالفت کرتے رہے۔ جب یہ لوگ دنیا سے رخصت ہو گئے تو ان کے بُت بنانے شروع کردیے، ان کی تصویریں بنائیں اور ان کی قبروں کو کسب معاش کا ذریعہ بنا لیا۔
احادیث قیمہ سے قبور کے متعلق مندرجہ ذیل خرابیاں معلوم ہوتی ہیں، اگر اسےجاہلی زیارت سے تعبیر کیا جائے تو بے جانہ ہو گا:
1۔ قبروں کا پختہ بنانا اور ان پر بلا ضرورت مال صرف کرنا۔
2۔ ان پر سجدہ کرنا اور ان سے حاجات طلب کرنا۔
3۔ قبروں کے پاس مساجد اور عبادت گاہیں تعمیر کرنا، مجاورت کے طریق سے دنیا کمانا۔
4۔ قبروں پر میلے لگانا، عرس کرنا اور ان پر اجتماعات منعقد کرنا اور اسے عید اور مسرت تصور کرنا
احادیث سے جہاں ان بیماریوں کا علم ہوتا ہے، وہاں ان سے کراہت اور نفرت کا