کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 470
ہیں۔ اس واقعہ سے انسان کی عجلت پسندی اور کم علمی کا پتا چلتا ہے۔ ہابیل ایک نیک آدمی تھا، نہ اس کا قبہ بنانے کا حکم فرمایا، نہ کسی دوسرے اعزاز کا اس کے ساتھ۔ وہ مظلوم بھی تھا۔
اصحاب کہف:
اس کے قریب قریب اصحاب کہف کا واقعہ ہے۔ یہ نوجوان اللہ کی راہ میں ہجرت کے لیے نکلے۔ ظالم حکومت سے بچ بچا کر ایک غار میں پناہ لی ان پر غنودگی طاری ہو گئی۔
((وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ)) (الکہف:18)
وہ سو گئے۔ غار خطرناک تھا، لوگوں نے نشان کے لیے وہاں مسجد بنادی۔ اہل بدعت نے اسے کھینچ تان کر قبروں پر مسجد بنانے کے لیے جواز کی دلیل قراردیا ہے، لیکن یہ استدلال قطعاً بے محل ہے۔ جب نص قرآن کے مطابق اصحابِ کہف پر متعارف موت طاری ہی نہیں ہوئی، زندہ آدمی سورہے ہیں، قبر ہے نہ موت، اس لیے اسے اعزازی قبر سے تعبیر کرنا قطعاً غلط اور بے معنی ہے۔
سابق انبیاء علیہم السلام :
قرآن حکیم میں انبیاء کے قصص کا تذکرہ ضروری تفصیل سے فرمایا گیا، ان میں سے اکثر کا انتقال زمین پر ہوا اور یہیں دفن ہوئے:
٭ ((وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ)) (الانبیاء:8)
”وہ کھانا بھی کھاتے اور ہمیشہ زندہ بھی نہیں رہے، دنیا کا قانون یہی بنایا گیا۔ “
٭ (( مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ)) (طہٰ:55)
”اسی زمین میں ہم نے تمھیں زندگی عطا کی، اسی میں تم دفن ہوگئے، اسی سے تمھارا حشر ہو گا۔ “