کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 47
مختلف ادوار:
شاہ صاحب کا افکار وخیالات کا گہرائی اور جامعیت کے ساتھ جائزہ لینے والے اہل علم اُن سے متعلق رائے قائم کرنے میں جلدی نہیں کرتے، نہ کسی ایک پہلو کی بنیاد پر حکم لگاتے ہیں، بلکہ ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور مرحلوں کا مطالعہ کرنے کے بعد حکم لگاتے ہیں، اسی وجہ سے یہ حکم معتدل اوردرست ہوتا ہے۔
مصنف نے بڑی صراحت وجرأت کے ساتھ اس نقطے کو اُبھارا ہے۔ لکھتے ہیں:
”واقعہ یہ ہے کہ شاہ صاحب کی زندگی کے مختلف ادوار ہیں۔ شاہ صاحب کا سیال قلم ان تمام ادوار میں اپناکام کرتارہا۔ ہروقت کے تاثرات شاہ صاحب کے قلم سے ظاہر ہوتے رہے۔ شاہ صاحب کا جوحصہ تصوف کے متعلق ہے، اس میں ایسا مواد ملتا ہے جس سے بریلویت کی خاصی تائید ہوتی ہے۔ بریلوی حضرات کو شاہ صاحب اوران کے خاندان پراعتماد نہیں، ورنہ”شفاء العليل“وغیرہ سے بدعی خیالات کی خاصی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
”اہلحدیث اور حضرات دیوبند تو شاہ صاحب کے عقیدت مند ہیں، جہاں تک اہلحدیث کا تعلق ہے، یہ جاننے کے باوجود کہ شاہ صاحب کا رجحان احناف کی طرف بعض جگہ نمایاں ہے، ان کے ہاں شاہ صاحب کے احترام اور اُن سے عقیدت میں فرق نہیں آیا۔ شاہ صاحب جمود کے سخت مخالف ہیں۔ آج جو بیداری اورحریت فکر ملک میں موجود ہے، اس کی ابتداحضرت مجدد الف ثانی سے ہوئی، لیکن اسے کھل کر نمایاں حضرت شاہ صاحب نے فرمایا، اسی بیداری کی تحریک نے شاہ اسماعیل شہید اوراُن کے مخلص رفقاء میں ترک تقلید کی صورت اختیار کرلی، جسے مولانا سید نذیر